اردو : نوٹس
(زبان کا تعار ف ( زبان کیا ہے
زبان ایک مسلسل عمل ہے جسے انسان اپنی پیدائش سے سیکھنا شروع کرتا ہے اور آخر تک سیکھتا چلا جاتا ہے۔ معاشرے میں ہر فرد، دوسے فرد سے الفاظ و حروف کا تبادلہ کرتا ہے۔ زبان ایک سماجی ورثہ ہے کسی زبان کے عروج و زوال کی داستان کو دراصل کسی قوم کے عروج و زوال کی تاریخ سمجھنا چاہیئے۔
زبانوں کی تشکیل و ارتقاء براہِ راست انسانی خیالات کی تشکیل اور ارتقاء پر منحصر ہے۔ زبانیں کسی سوچے سمجھے منصوبے اور دانستہ کوشش کے نتیجے میں وجود میں نہیں آتیں، بلکہ خود بخود انسانی اور سماجی معاشرتی اشتراک کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ انسانی معاشروں کی تشکیل و ترقی میں زبان کی اہمیت سے انکار نہ ممکن ہے۔ انسان کے پاس جس قدر سرمایہِ الفاظ ہوگا اسی قدر وہ اپنی بات کو دوسروں تک خوبصورت انداز میں پہنچانے کے قابل ہوگا۔
زبان کی ایجاد انسان کا پہلا اور سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ انسان کی سب سے بڑی ایجاد زبان ہی ہے اور ادب اس کی تخلیقی اظہار سے عبارت ہے خواہ وہ نظم میں ہو یا نثر میں، زبان کی ترقی معاشرے کی ترقی سے وابسطہ ہے۔ خیالات، تاثرات جذبات اور محسوسات کا زیادہ تر اظہار زبان ہی سے ہوتا ہے۔ زبان ہی رابطے کا بنیادی جز ہے۔
اردو زبان کی ابتداء و ارتقاء:
برصضیر میں رابطے کی سب سے بڑی و اہم زبان جسے اردو کا نام دیا گیا اس کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ مختلف زبانوں کا مجموعہ ہے۔ آغاز و ارتقاء میں تین زبانوں کا ہم کردار ہے۔ عربی، فاسی اور ہندی یا سنسکرت۔ ان تینوں زبانوں کی تاریخ بہت صاف ہے۔ جہاں تک ہندی یا سنسکرت کا تعلق ہے یہ ہندوستان کی مقامی بولی تھی اور عربی محمد بن قاسم کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوئی۔ جہاں تک فارسی کے ہندوستان میں داخل ہونے کی بات ہے ان میں دو وجوہات بہت اہم ہیں۔
ایک تو ایران کے لوگ مذہبی اور تجارتی حوالے سے عربوں کے دوست تے لہٰذا عربوں کے ہندوستان میں قدم جماتے ہی فارسی بولنے والوں کی آمدورفت ہندوستان میں ہوئی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد عرب کے علاوہ وسطیِ ایشائی ممالک سے ہوئی جن کی زبانوں میں فارسی کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ لہٰذا فاتحین کی شکل میں اور کبھی تجاری حوالے سے یہ لوف اس سرزمین پر داخل ہوئے۔
ان تمام لوگوں کو اپنی تہذیبی، تجارتی، سیاسی انتظامی اور کاروباری حوالے سے یہ ضروری تھا کہ ایک ایسی زبان ہونی چاہیے کہ جس کے ذریعے وہ ایک دوسرے کی بات سمجھ سکیں یہ وہ زمانہ تھا جب مغلوں کی حکومت ہندوستان میں قائم ہو چکی تھی اور وربی و فارسی زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔ جس کا لازمی نتجہ یہ تھا کہ لا شعوری طور پر محکوم قوم پر فاتح قوم کی تہذیب و تمدن اور زبان کے اثرات پڑنا شروع ہو گئے تھے اور یہ زبانیں قلعے سے نکل کر دور دراز کے علاقوں تک پھیلنا شروع ہو گئیں یوں اس رابطے کی زبان میں اضافہ ہوتا گیا اور جو زبان مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ ہندوستان میں داخؒ ہوئی آہستہ آہستہ تشکیل کے مراحل طے کرتی گئی۔
اردو کے کے معنیٰ اور ابتدائی نام:
مغلوں کے زمانے سے اردو کا لفظ ہندوستان میں لشکر یا لشکر گاہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اکبر، بابر اور جہانگیر کے فرمانوں میں اردو کا لفظ لشکر کے طور پر درج ہے۔ شہانِ مغلیہ کے زمانے میں شاہی لشکر گاہ کو اردوِ معلیٰ بھی کہا کرتے تھے اور بازارِ لشکر کو اردوبازار یا بازارِ اردو کا نام بھی دیا گیا ہے۔
قدیم اردو کو ہندوستان کی نسبت س ہندی، ہندوی بھی کہا جاتا رہا ہے۔ فارسی میں لفظ ریختہ یا ریختن (جس کے معنی بنانا یا ڈھالنا کے ہیں) مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بولیوں کے ملاپ کی وجہ سے اردو کو بطورِ استعارہ ’ریختہ‘ بھی کہا گیا ہے۔ لفظ ہندی کی طرح لفظ اردو کا استعمال سب سے پہلے شہنشاہ بابر نے کیا ۔ اردو کو ابتداء میں ہندوستانی بھی کہا جاتا رہا ہے۔ اردو کے دہلوی، گجراتی، دکنی گوجری نام بھی ہیں یہ وہ علاقائی نام ہیں جہاں شروع شروع میں اردو کو فروغ حاصل ہوا۔
اردو زبان کی اہمیت و افادیت:
پاکستان میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں پشتو، بلوچی، براہوی، پنجابی، سرائیکی، سندھی ہندکو وغیرہ بولی جاتی ہیں ان تمام زبانوں کی اپنے اپنے علاقوں میں اہمیت بہت زیادہ ہے مگر دوسے صوبوں میں رہنے والے ان میں سے کسی زبان میں دی گئی تعلیم سے مانوس نہیں ہو پائیں گے۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جو ہر صوبے میں لکھی، پڑھی اور بولی جاتی ہے پر پڑھا لکھا شخص اردو زبان سے واقف ہے۔ اسی لئے پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔
باب دوم: اصنافِ ادب:
i) نظم (شاعری)۔ ii) نثر
فکشن: داستان، ناول، افسانے، ڈرامے۔
غیرفکشن: خطوط، سوانح عمری، سفرنامے، مضامین/کالم، خاکے، آپ بیتی، طنزو مزاح
ڈرامے: دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، ناظرین کے لئے لکھے جاتے ہیں۔
داستان: داستان کا تعلق بیان سے ، سننے سنانے سے ہے۔
ناول /افسانہ: پڑھنے کی چیزیں ہیں، قاری کے لئے لکھی جاتی ہیں۔ ناول میں پوری زندگی جبکہ افسانے میں زندگی کا کوئی ایک پہلو ہوتا ہے۔
داستان کیا ہے؟
داستان ایسے طویل نثری قصے کو کہتے ہیں، جس کی بنیاد تخیل، رومان، جذبات اور مافوق الفطرت عناصر پہر ہو۔ اور اس میں قصہ در قصہ (کئی قصے) بیاں ہوں۔
داستان کسی خیالی اور مثالی دنیا کی کہانی ہے جو محبت، مہم جوئی، سحرو طلسم، جیسے غیر معمولی عناصر پر مشتمل ہوں اور مصنف کے آزاد و زرخیز ذہن کی پیداوار ہو۔
داستان کی خصوصیات: داستان میں مافوق الفطرت عناصر، واقعات، مقامات اور کرداروں کی کثرت ہوتی ہے۔ جادوں کی چیزیں، جادوں کے واقعات، خزانوں، جن پریوں، بھوت پریت، شہزادے، شہزادیوں کا ذکر قدم قدم پر نظر آتا ہے۔
داستان ناول یا افسانے کے برعکس ہماری خارجی دنیا سے بلند و برتر ایک مثالی اور خیالی دنیا کی کہانی ہوتی ہے، جس میں مثالی کردار بستے ہیں اور مثالی واقعات آتے ہیں جو آخر کار مثالی نتیجے پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔
ناول:
ناول اطالوی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ نئی چیز کے ہیں ناول سے مراد سادہ زبان میں ایک ایسی کہانی ہے جس میں انسانی زندگی کے معمولی واقعات اور روزانہ پیش آنے والے معاملات کو اس انداز میں بیان کیا جائے کہ پڑھنے والوں کو اس میں دلچسپی پیدا ہو۔ یہ دلچسپی پلاٹ، کردارنگاری، منظر نگاری، مکالمہ نگاری، سے پیدا کی جاتی ہے اور یہی ایک ناول کے بنیادی عناصر بھی ہیں۔ پلاٹ اور کردار نگاری خاص طور پر اہم ہیں۔
واقعات کی خاص ترتیب کو پلاٹ کہا جاتا ہے ناول کا موضع ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے زندگی۔ ناول کا موضوع زندگی بلکہ انسانی زندگی ہے۔ اسی لئے ناول کی بنیاد تجربے پر ہو اور ناول زندگی کی دیانتدارانہ ترجمانی کا حق ادا کرے۔ بعض حضرات و ناقدین کی نظر میں ناول سے مراد نثری قصہ ہے۔ جس میں کسی خاص زاویہ نظر سے زندگی کی واقیعیت پسندانہ عکاسی کی گئی ہو۔
ناول کی بنیادہ خصوصیات: فنی اعتبار سے ناول کی بنیاد درج ذیل خصوصیاتیا عناصر پر ہوتی ہے۔
کہانی، پلاٹ، کرادار نگاری، منظر نگاری، نقطہءِ نظر، زبان و بیان، تصورِ زمان و مکان، واقعات کا مربوط ہونا، قمنی قصے۔
افسانہ:
افسانہ کے لئے عام طور پر مختصر افسانے کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ افسانے کے لغوی معنیٰ جھوٹی بات کے ہیں، لیکن اس مختصر کہانی میں زندگی کے کسی ایک پہلو کی مکمل عکاسی کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ابو الہث صدیقی لکھتے ہیں کہ ’’افسانے سے مراد مختصر کہانی میں زندگی کے کسی ایک پہلو کو بے نقاب کیا گیا ہو‘‘۔ مختصر افسانہ وہ کہانی ہے جسے ایک نشست میں پڑھا جائے۔ خالد اختر کے مطابق اس میں کہانی ضرور ہونی چایئے کہانی جس میں آغاز، وسط اور انجام ہو۔ اس کے کردار جیتے جاگتے اور پہچانے جانے والے ہوں۔ اور اس میں اتنی دلچسپی ہو کہ اس کو ختم کئے بغیر چین نہ آئے اور اس کو پڑھنے کے بعد اس کے کردار و واقعات تھوڑی دیر تک ذہن میں ہلچل مچائے رکھیں۔
افسانے کی نمایاں خصوصیات۔
موضوع، وحدتِ تاثر، اختصار(مختصر)، ربط، افسانے کی فضا بندی، کردار، افسانہ نگار کا اسلوب، مکالمے اور عنوان ، افسانے کے معیار کے سلسلے میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔
ڈرامہ:
ڈرامہیونانی زبان کا لفظ ہے، ڈراؤ سے لیا گیا جس کا مطلب ہے ’کر کے دکھانا‘۔ ڈرامہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان۔ کیونکہ ڈرامے کی ابتداء انسان کی پیدائش سے ہی ہوئی کیونکہ انسان کو فطرت میں نقالی کا جو جذبہِ فطرت کی طرف سے ملا ہے اسی وجہ سے ہی ڈرامے کی ابتداء ہوئی۔
نقل یا گفتار اور حرکت و عمل کے ذریعے اہنے آپ کو دوسروں کے سامنے پیش کرنا ہی ڈرامے کی بنیاد ہے۔ جان گیز نے ڈرامے کو انسان کی بنیادی ضرورت کی پیداوار قرار دیا ہے۔
ڈرامہ صنفِ ادب ہے جس کے الفاظ میں گفتار کی متحرک قوت اور کردار میں عمل اور ارادے کی کیفیت موجود ہو۔ ڈرامے کی تخلیق میں ڈرامہ نگار، اداکار، تماشی سب کے سب برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
ڈرامے میں زندگی کی حقیقتوں اور اس کے مظاہر کو کردار اور مکالموں کے وسیلے سے پیش کیا جاتا ہے۔ ڈرامے کی ابتداء یونان سے ہوئی۔
ڈرامے کے اجزاء ترکیبی:
ارسطو نے ڈرامے کو چھ اجزائے ترکیبی کا مرکب بنایا ہے اور یوں تقسیم کیا ہے۔
قصہ، کردار، الفاظ، خیالات، آرائیش، موسیقی۔ ان میں قصہ یا پلاٹ کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔
طنزو مزاح:
طنز کے معنی طعنہ دینا یا چھیڑنا جبکہ مزاح کے معنی ہنسی و مذاق کے ہیں۔ طنز و مزاح میں طنز نگار زندگی کی کسی ناہمواری یا کمزوری کو لفظوں کے نشتر لگاتا ہے۔ دراصل طنز، مزاح کی ایک شکل ہے۔ مزاح میں زندگی کی نہ ہمواریوں پر ہمدردانہ نظر ڈالی جاتی ہے جبکہ طنز میں ہمدردی کے بجائے نفرت کا جذبہ زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ مزاح نگار مزاح پیدا کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتا ہے۔ مثلاً دو چیزیوں کی آپس میں بیک وقت مشابہت اور تضاد سے جو نہ ہمواری پیدا ہوتی ہے اسی کے لئے بطور حربہ استعمال ہوتی ہے۔ زبان و بیان کے مختلف حربے مثلاً رعایت لفظی یا نقطی تکرار سے بھی مزاح پیدا ہوتا ہے۔ بعض اوقات مزاح نگار کسی مزاحیہ صورتحال سے اور کبھی کسی مزاحیہ کردار کی مدد سے بھی مزاح پیدا کر سکتا ہے۔ اور جدید اصناف میں پیروڈی بھی مزاح نگاری کے لئے ایک حربہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ اردو میں شفیق الرحمٰن، مشتاق احمد یوسفی، ڈاکٹر یونس بٹ، کرنل محمد خان اور عطا الحق قاسمی وغیرہ مزاح نگاری میں مشہور ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری:
مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری کی سب سے بڑی خصوصیات یہ ہیں کہ انہوں نے پوری زندگی کو مزاح کا موضوع بنایا ہے انہوں نے ہر واقعہ ہر حادثے کو اسطرح بیان کیا ہے کہ زندگی کا کوئی گوشہ، کوئی حصہ ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا۔ ان کے ہر مضمون میں کوئی نہ کوئی پیغام، مقصد اور اخلاقی نقطہِ نظر ضرور ہوتا ہے۔ انہوں نے سنجیدہ موضوعات پہ بھی لکھا ہے لیکن ان میں بھی مزاح کا کوئی نہ کوئی پہلو نکالا ہے۔
ضرب المثال:
یہ دو لفظوں کا مر کب ہے ’’ضرب‘‘ اور ’’امثال‘‘ ۔ ضرب کے معنی ہیں بیان کرنا اور امثال جمع ہے مثل کی۔ مثل کے معنی مثال کے ہیں۔ ضرب المثال کے معنی ہیں ’’مثالیں بیان کرنا‘‘۔ مگر یہ مثالیں عام نہیں، خاص ہوتی ہیں۔ یعنی مثال کے چند الفاظ میں پوری ایک کہانی، ایک پورے قصے، یا واقعے کا نچوڑ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ چند الفاظ پڑھ کر یا سن کر پورا قصہ زہن میں تازہ ہو جاتا ہے۔ ضرب المثل کو ’’کہاوت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
نوٹ: ضرب المثال بھی اپنے معنوں سے ہٹ کر کچھ اور معنی دیتی ہیں۔ ہم انہیں عموماًاپنی بات کو وزنی اور مؤثر بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ذیل میں چند مثالین درج ہیں۔
۱۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ معنی: صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے۔
۲۔ بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا۔ معنی: قریب پڑی ہوئی چیز کو ہر جگہ تلاش کرنا۔
۳۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ معنی: ضرورت کے لحاظ سے بہت کم مقدار میں ہوتا۔
محاورہ:
لغت میں ’محاروہ‘ کے معنی گفتگو اور بات چیت کے ہیں۔ لیکن قواعدِ گرائمر میں محاورہ اس کلمے کو کہتے ہیں جو اپنے حقیقی معنوں کے بجائے اصطلاحی معنوں میں استعمال کیا گیا ہو۔ مثال کے طور پر ’’سبز باغ دکھانا‘‘ کے لغوی معنی کسی کو ہرے بھرے باغ کی سیر کرانا ہے لیکن اصطلاح میں اس کے معنی ’’لالچ دے کر دھوکا دینا‘‘ ہے۔ مثالیں درج ذیل ہیں
۱۔ باغ باغ ہونا: معنی: حد سے زیادہ خوش ہونا
۲۔ آسمان سے باتیں کرنا: معنی: بہت بلند ہونا۔
باب سوم: اصنافِ سخن (نظم و غزل)
اصنافِ نظم بیان کرنے سے پہلے شاعری کی چند اصطلاحات کو سمجھنا ضروری ہے۔
شعر: کلامِ موزوں کو شعر کہتے ہیں جو گایا جا سکے، جو انسانی جذبے کو ظاہر کرے اور اس میں اثر ہو۔ صداقت و جوش سے بھر پور ہو، وزن میں ہو ۔ مولانا حسرت موہانیؔ فرماتے ہیں
شعر دراصل وہی ہیں حسرت جو سنتے ہی دل میں اتر جائیں۔
قافیہ: قفا سے مشتق ہے جس کے معنی پیچھے آنے والے کے ہیں۔ اصطلاح میں چند حروف و حرکات کے اس مجموعہ کو قافیہ کہتے ہیں جس کی تکرار بہ الفاظ مختلف شعر یا معرع کے آخر میں ردیف سے قبل آئے اگر ردیف نہیں ہے تو قافیہ اخر میں ہوگا۔ مثلاََ
کی محمد سے وفا تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں ہے چیز کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اس شعر میں ’ہم‘ اور ’قلم‘ قافیہ ہیں۔
ردیف: اس لفظ کو کہتے ہیں جو قافیہ کے بعد آئے ہر نظم یا غزل میں ردیف کا ہونا لازمی نہیں البتہ قافیہ لازمی ہے ردیف کا ایک لفظ بھی ہو سکتا ہے اور کئی الفاظ بھی ہو سکتے ہیں۔
جو نقش ہے ہسی کا دھوکا نظر آتا ہے پردے پہ مصور ہی تنہا نظر آتا ہے
اس شعر میں ’’نظر آتا ہے‘‘ ردیف ہے۔
مطلع: کسی غزل کے سب سے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں، بشرط کہ اس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوں یا صرف ہم قافیہ ہوں۔ مثلاََ غالب کی ایک غزل کا مطلع ہے
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تیری ذلف کے سر ہونے تک
مقطع: وہ آخری شعر جس پر نظم یا غزل کا خاتمہ ہو، اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے۔ اسے مقطع کہتے ہیں۔ فرازؔ کا شعر ہے۔
اب نہ وہ ہیں ، نہ وہ تو ہے، نہ وہ ماضی ہے فرازؔ جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں۔
تلمیح: عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مادہ مصدر، معنیٰ لمحہ، ایک جھلک یا اشارہ کرنا ہے۔ اصطلاحِ شعر میں کسی فرضی یا تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کرنے کو تلمیح کہتے ہیں۔
کِیا کیا خضر نے سکندر سے، اب کسے رہنما کرے کوئی!
غزل: غزل کے لغوی معنٰی عورتوں سے یا عورتوں کے متعلق بات چیت یا گفتگو کرتا ہے۔ ہرن کے منہ سے بوقتِ خوف جو درد ناک چیخ نکلتی ہے اسے بھی غزل کہا جاتا ہے۔ لیکن ادب میں غزل سے مدار وہ صنفِ شعر ہے جس میں درد، اور سو بہت نمایاں ہو اور جس میں مختلف کیفیات کا بیان ہو۔ غزل میں عام طور پر (طاق اعداد میں) پانچ سے ستائیس اشعار ہوتے ہیں۔ اس کا ہر شعر جدا رنگ کا مضمون رکھتا ہے، البتہ سارے اشعار ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔ غزل کا پہلا شعر مطلع اور آخری مقطع کہلاتا ہے جس میں شاعر اپنا تخلص بھی لکھتا ہے۔ غزل کے لئے موضوع کی کوئی قید نہیں ہے غزل کو ہم گلدستے سے بھی تشبیح دے سکتے ہیں جس میں مختلف رنگوں کے پھول ایک ساتھ ہوتے ہیں۔
نظم: وسیع و عام مفہوم میں ہر کلامِ منظوم نظم ہے لیکن نظم کے ایک محدود معنٰی بھی ہیں جن کے مطابق نظم ایک صنفِ سخن کے اس کا مطلب ہوتا ہے اشعار کا ایک ایسا مجموعہ جس میں ایک مرکزی خیال ہو۔ نظم میں شاعر ایک ہو موضوع کی پابندی کرتا ہے اور اس میں شروع سے آخر تک کوئی خیال تسلسل سے پیش کیا جاتا ہے۔
شاعری میں دو چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں، (i) خیال یا موضوع، (ii) ہیت یا فارم۔ اس لحاظ سے اصنافِ نظم کا جائزہ دو حوالوں سے لیا جاتا ہے۔ مضوع کے لحاظ سے اور ہیت کے اعتبار سے۔
موضوع کے اعتبار سے شاعری کی دس اقسام ہیں۔ حمد، نعت، مرثیہ، غزل، قصیدہ، شہرِ آشوب، ریختی، پیرڈی، گیت، واسوخت۔
ماشاءاللہ بہت زبردست
ReplyDeleteاللہ آپ کی توفیقات میں اور اضافہ کرے اور زندگی کے ہر مشکلات میں ثابت قدم رکھے
Kia ap be Education department me ha
Delete