اب اور کہنے کی ضرورت نہیں

یہ دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔ خاص کر آج کا زمانہ۔ قانون کو جس طرح فریب دیا جاتا ہے ٗ اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ علم نہ ہو۔ آج کل قانون ایک بے معنی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر کوئی نیا قانون بنتا ہے ٗ اُدھر یار لوگ اس کا توڑ سوچ لیتے ہیں ٗ اس کے علاوہ اپنے بچاؤ کی کئی صورتیں پیدا کر لیتے ہیں۔ کسی اخبار پر آفت آنی ہو تو آیا کرے، اس کا مالک محفوظ و مامون رہے گا ٗ اس لیے کہ پرنٹ لائن میں کسی قصائی یا دھوبی کا نام بحیثیت پرنٹر پبلشر اور ایڈیٹر کے درج ہو گا۔ اگر اخبار میں کوئی ایسی تحریر چھپ گئی جس پر گورنمنٹ کو اعتراض ہو تو اصل مالک کے بجائے وہ دھوبی یا قصائی گرفت میں آ جائے گا۔ اس کو جرمانہ ہو گا یا قید۔ جرمانہ تو ظاہر ہے اخبار کا مالک ادا کر دے گا، مگر قید تو وہ ادا نہیں کرسکتا۔ لیکن ان دو پارٹیوں کے درمیان اس قسم کا معاہدہ ہوتا ہے کہ اگر قید ہوئی تو وہ اس کے گھر اتنے روپے ماہوار پہنچا دیا کرئے گا۔ ایسے معاہدے میں خلاف ورزی بہت کم ہوتی ہے۔ جو لوگ ناجائز طور پر شراب بیچتے ہیں، ان کے پاس دو تین آدمی ایسے ضرور موجود ہوتے ہیں جن کا صرف یہ کام ہے کہ اگر پولیس چھاپہ مارے تو وہ گرفتار ہو جائیں اور چند ماہ کی قید کاٹ کر واپس آ جائیں اس کا معاوضہ ان کو معقول مل جاتا ہے۔ چھاپہ مارنے والے بھی پہلے ہی سے مطلع کر دیتے ہیں کہ ہم آرہے ہیں ٗ تم اپنا انتظام کر لو۔ چنانچہ فوراً انتظام کر لیا جاتا ہے ٗ یعنی مالک غائب غلہ ہو جاتا ہے اور وہ کرائے کے آدمی گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی ملازمت ہے لیکن دنیا میں جتنی ملازمتیں ہیں کچھ اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ میں جب امین پہلوان سے ملا تو وہ تین مہینے کی قید کاٹ کر واپس آیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا :
’’امین ! اس دفعہ کیسے جیل میں گئے؟‘‘
امین مسکرایا:
’’اپنے کاروبار کے سلسلے میں‘‘
’’کیا کاروبار تھا؟‘‘
’’جو رہا، وہ ہے‘‘
’’بھئی بتاؤ تو۔ ‘‘
’’بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں مگر خواہ مخواہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔ ‘‘
میں نے تھوڑے سے توقف کے بعد اس سے کہا۔ ‘‘
امین ! تمہیں آئے دن جیل میں جانا کیا پسند ہے؟‘‘
امین پہلوان مسکرایا:
’’جناب۔ پسند اور نا پسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لوگ مجھے پہلوان کہتے ہیں ٗ حالانکہ میں نے آج تک اکھاڑے کی شکل نہیں دیکھی۔ اَن پڑھ ہوں۔ کوئی اور ہنر بھی مجھے نہیں آتا۔ بس ٗ جیل جانا آتا ہے۔ وہاں میں خوش رہتا ہوں۔ مجھے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ آپ ہر روز دفتر جاتے ہیں۔ کیا وہ جیل نہیں۔ ‘‘
میں لاجواب ہو گیا:
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ امین لیکن دفتر جانے والوں کا معاملہ دوسرا ہے۔ لوگ انہیں بُری نگاہوں سے نہیں دیکھتے۔ ‘‘
’’کیوں نہیں دیکھتے ! ضلع کچہری کے جتنے مُنشی اور کلرک ہیں‘ انہیں کون اچھی نظر سے دیکھتا ہے۔ رشوتیں لیتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں اور پرلے درجے کے مکار ہوتے ہیں۔ مجھ میں ایسا کوئی عیب نہیں۔ میں اپنی روزی بڑی ایمانداری سے کماتا ہوں۔ ‘‘
میں نے اس سے پوچھا۔
’’کس طرح؟‘‘
اس نے جواب دیا :
’’اس طرح کہ اگر کسی کا کام کرتا ہوں اور قید کاٹتا ہوں جیل میں محنت مشقت کرتا ہوں اور بعد میں اس شخص سے جس کی خاطر میں نے سزا بھگتی تھی ٗ مجھے دو تین سو روپیہ ملتا ہے تو یہ میرا معاوضہ ہے ٗ اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ میں رشوت تو نہیں لیتا۔ حلال کی کمائی کھاتا ہوں۔ لوگ مجھے غنڈا سمجھتے ہیں۔ بڑا خطرناک غنڈا۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ میں نے آج تک کسی کے تھپڑ بھی نہیں مارا۔ میری لائن بالکل الگ ہے۔ ‘‘
اس کی لائن واقعی دوسروں سے الگ تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ تین چار مرتبہ قید کاٹنے کے باوجود اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ وہ بڑا سنجیدہ مگر گنوار قسم کا آدمی تھا جس کو کسی کی پروا نہیں تھی۔ قید کاٹنے کے بعد جب بھی آتا تو اس کا وزن کم از کم دس پاؤنڈ زیادہ ہوتا۔ ایک دن میں نے اس سے پُوچھا۔
’’امین کیا وہاں کا کھانا تمہیں راس آتا ہے؟‘‘
اس نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا :
’’کھانا کیسا بھی ہو ٗ اس کو راس کرنا آدمی کا اپنا کام ہے۔ مجھے دال سے نفرت تھی ٗ لیکن جب پہلی مرتبہ مجھے وہاں کنکروں بھری دال دی گئی اور ریت ملی روٹی تو میں نے کہا۔ امین یار۔ یہ سب سے اچھا کھانا ہے، کھا ٗ ڈنڑ پیل اور خدا کا شکر بجا لا۔ چنانچہ میں ایک دو روز ہی میں عادی ہو گیا۔ مشقت کرتا ٗ کھانا کھاتا اور یوں محسوس کرتا جیسے میں نے گنجے کے ہوٹل سے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے۔ ‘‘
میں نے ایک دن اس سے پوچھا :
’’تم نے کبھی کسی عورت سے بھی محبت کی ہے؟‘‘
اس نے اپنے دونوں کان پکڑے۔
’’خدا بچائے اس محبت سے‘ مجھے صرف اپنی ماں سے محبت ہے۔ ‘‘
میں نے اس سے پوچھا:
’’تمہاری ماں زندہ ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔ خدا کے فضل و کرم سے۔ بہت بوڑھی ہے لیکن آپ کی دعا سے اس کا سایہ میرے سر پر دیر تک قائم رہے گا اور وہ تو ہر وقت میرے لیے دعائیں مانگتی رہتی ہے کہ خدا مجھے نیکی کی ہدایت کرے۔ ‘‘
میں نے اُس سے کہا :
’’خدا تمہاری ماں کو سلامت رکھے ! پر میں نے یہ پوچھا تھا کہ تمہیں کسی عورت سے محبت ہوئی یا نہیں دیکھو ٗ جھوٹ نہیں بولنا !‘‘
امین پہلوان نے بڑے تیز لہجے میں کہا :
’’میں نے اپنی زندگی میں آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ میں نے کسی عورت سے محبت نہیں کی۔ ‘‘
میں نے پوچھا :
’’کیوں‘‘
اس نے جواب دیا :
’’اس لیے کہ مجھے اس سے دلچسپی ہی نہیں۔ ‘‘
میں خاموش ہو رہا۔ تیسرے روز اس کی ماں پر فالج گرا اور وہ راہئ ملکِ عدم ہوئی۔ امین پہلوان کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔ وہ سوگوار ٗ مغموم اور دل شکستہ بیٹھا تھا کہ شہر کے ایک رئیس کی طرف سے اسے بلاوا آیا۔ وہ اپنی عزیز ماں کی میّت چھوڑ کر اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا : کیوں میاں صاحب ٗ آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے؟‘‘
میاں صاحب نے کہا :
’’تمہیں کیوں بلایا جاتا ہے۔ ایک خاص کام ہے‘‘
امین نے جس کے دل و دماغ میں اپنی ماں کا کفن دفن تیر رہا تھا‘ پوچھا:
’’حضور یہ خاص کام کیا ہے؟‘‘
میاں صاحب نے سگریٹ سلگایا :
’’بلیک مارکیٹ کا قصہ ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آج میرے گودام پر چھاپہ مارا جائے گا سو میں نے سوچا کہ امین پہلوان بہترین آدمی ہے جو اسے نمٹا سکتا ہے۔ ‘‘
امین نے بڑے مغموم اور زخمی انداز میں کہا:
’’آپ فرمائیے ٗ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
’’بھئی ٗ خدمت و دمت کی بات تم مت کرو۔ بس صرف اتنی سی بات ہے کہ جب چھاپہ پڑے تو گودام کے مالک تم ہو گے۔ گرفتار ہو جاؤ گے۔ زیادہ سے زیادہ جرمانہ پانچ ہزار روپے ہو گا اور ایک دو برس کی قید !‘‘
’’مجھے کیا ملے گا؟‘‘
’’جب وہاں سے رہا ہو کر آؤ گے تو معاملہ طے کر لیا جائے گا۔ ‘‘
امین نے میاں صاحب سے کہا :
’’حضور ٗ بہت دور کی بات ہے جرمانہ تو آپ ادا کر دیں گے، لیکن قید تو مجھے کاٹنی پڑے گی۔ آپ باقاعدہ سودا کریں۔ ‘‘
میاں صاحب مسکرائے :
’’تم سے آج تک میں نے کبھی وعدہ خلافی کی ہے۔ پچھلی دفعہ میں نے تم سے کام لیا اور تم کو تین مہینے کی قید ہوئی ٗ تو کیا میں نے جیل خانے میں ہر قسم کی سہولت بہم نہ پہنچائی۔ تم نے باہر آکر مجھ سے کہا کہ تمہیں وہاں کوئی تکلیف نہیں تھی۔ اگر تم کچھ عرصے کیلیے جیل چلے گئے تو وہاں تمہیں ہر آسائش ہو گی۔ ‘‘
امین نے کہا :
’’جی۔ یہ سب درست ہے۔ لیکن۔ ‘‘
’’لیکن کیا؟ امین کی آنکھوں میں آنسو آگئے :
’’میاں صاحب ! میری ماں مر گئی ہے۔ ‘‘
’’کب؟‘‘
’’آج صبح۔ ‘‘
میاں صاحب نے افسوس کا اظہار کیا :
’’کفنا دفنا دیا ہو گا۔ ‘‘
امین کی آنکھوں میں سے آنسو ٹپ ٹپ گِرنے لگے
’’میاں صاحب ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ میرے پاس تو افیم کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ ‘‘
میاں صاحب نے چند لمحات حالات پر غور کیا اور امین سے کہا :
’’تو ایسا کرو۔ میرا مطلب ہے کہ تجہیز و تکفین کا بندوبست میں ابھی کیے دیتا ہوں۔ تمہیں کسی قسم کا تردّد نہیں کرنا چاہیے۔ تم گودام پر جاؤ اور اپنی ڈیوٹی سنبھالو۔ ‘‘
امین نے اپنی میلی قمیص کی آستین سے آنسو پونچھے۔
’’لیکن میاں صاحب میں۔ میں اپنی ماں کے جنازے کو کندھا بھی نہ دوں!‘‘
میاں صاحب نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
’’یہ سب رسمی چیزیں ہیں، مرحومہ کو دفنانا ہے۔ سو یہ کام بڑی اچھی طرح سے ہو جائے گا تمہیں جنازے کے ساتھ جانے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہارے ساتھ جانے سے مرحومہ کو کیا راحت پہنچے گی۔ وہ تو بے چاری اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔ اس کے جنازے کے ساتھ کوئی بھی جائے۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل میں تم لوگ جاہل ہو۔ میں اگر مر جاؤں تو مجھے کیا معلوم ہے کہ میرے جنازے میں کس کس عزیز اور دوست نے شرکت کی تھی۔ مجھے اگر جلا بھی دیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ میری لاش کو چیلوں اور گِدھوں کے حوالے کر دیا جائے تو مجھے اس کی کیا خبر ہو گی۔ تم زیادہ جذباتی نہ ہو ٗ دنیا میں سب سے ضروری چیز یہ ہے۔ کہ اپنی ذات کے متعلق سوچا جائے۔ میں پوچھتا ہوں، تمہاری کمائی کے ذرائع کیا ہیں۔ ‘‘
امین سوچنے لگا۔ چند لمحات اپنی بساط کے مطابق غور کرنے کے بعد اس نے جواب دیا
’’حضور ! میری کمائی کے ذرائع آپ کو معلوم ہیں، مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں۔ ‘‘
’’میں نے اس لیے پوچھا تھا کہ تمہیں میرا کام کرنے میں کیا حیل و حجت ہے۔ میں تمہاری ماں کی تجہیز و تکفین کا ابھی بندو بست کیے دیتا ہوں ٗ اور جب تم جیل سے واپس آؤ گے تو۔ ‘‘
امین پہلوان نے بڑے بینڈے انداز میں پوچھا۔
’’تو آپ میرا بھی بندو بست کر دیں گے۔ ‘‘
میاں صاحب بوکھلا گئے :
’’تم کیسی باتیں کرتے ہو امین پہلوان!‘‘
امین پہلوان نے ذرا درشت لہجے میں کہا :
’’امین پہلوان کی ایسی کی تیسی۔ آپ یہ بتائیے کہ مجھے کتنے روپے ملیں گے۔ میں ایک ہزار سے کم نہیں لوں گا۔ ‘‘
’’ایک ہزار تو بہت زیادہ ہیں۔ ‘‘
امین نے کہا :
’’زیادہ ہے یا کم۔ میں کچھ نہیں جانتا۔ میں جب قید کاٹ کر آؤں گا تو اپنی ماں کی قبر پختہ بناؤں گا ٗ سنگِ مر مر کی۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ ‘‘
میاں صاحب نے اس سے کہا
’’اچھا بھئی ٗ ایک ہزار ہی لے لینا۔ ‘‘
امین نے میاں صاحب سے کہا :
’’تو لائیے اتنے روپے دیجئے کہ میں کفن دفن کا انتظام کر لوں۔ اس کے بعد میں آپ کی خدمت کیلیے حاضر ہو جاؤں گا۔ ‘‘
میاں صاحب نے اپنی جیب سے بٹوا نکالا۔
’’لیکن تمہارا کیا بھروسا ہے !‘‘
امین کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کو کسی نے ماں بہن کی گالی دی ہے۔
’’میاں صاحب! آپ مجھے بے ایمان سمجھتے ہیں۔ بے ایمان آپ ہیں۔ اس لیے کہ اپنے فعلوں کا بوجھ میرے سر پر ڈال رہے ہیں۔ ‘‘
میاں صاحب موقع شناس تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ امین بگڑ گیا ہے ٗ چنانچہ انہوں نے فوراً اپنی چرب زبانی سے رام کرنے کی کوشش کی لیکن امین پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جب وہ گھر پہنچا تو دیکھا کہ غسّال اسکی ماں کو آخری غسل دے چکے ہیں۔ کفن بھی پہنایا جا چکا ہے۔ امین بہت متحیر ہوا کہ اس پر یہ مہربانی کس نے کی ہے۔ میاں صاحب نے۔ لیکن وہ تو سودا کرنا چاہتے تھے۔ اُس نے ایک آدمی سے جو تابوت کو سجانے کیلیے پھول گوندھ رہا تھا ٗ پوچھا
’’یہ کس آدمی نے اتنا اہتمام کیا ہے؟‘‘
پھول والے نے جواب دیا :
’’حضور! آپ کی بیوی نے۔ ‘‘
امین چکرا گیا۔ وہ اپنے شدید تعجب کا مظاہرہ کرتا مگر خاموش رہا۔ پھول والے سے صرف اتنا پوچھا۔
’’کہاں ہیں وہ۔ ‘‘
پھول والے نے جواب دیا :
’’جی اندر ہیں۔ آپ کا انتظار کررہی تھیں۔ ‘‘
امین اندر گیا۔ تو دیکھا کہ ایک نوجوان ٗ خوبصورت لڑکی اس کی چارپائی پر بیٹھی ہے۔ امین نے اس سے پوچھا۔
’’آپ کون ہیں۔ یہاں کیوں آئی ہیں‘‘
اُس لڑکی نے جواب دیا۔
’’میں آپ کی بیوی ہوں‘ یہاں کیوں آئی ہوں ٗ یہ آپ کا عجیب و غریب سوال ہے۔ ‘‘
امین نے اس سے پوچھا :
’’میری بیوی تو کوئی بھی نہیں۔ بتاؤ تم کون ہو۔ ‘‘
لڑکی مسکرائی :
’’میں۔ میاں۔ دین کی بیٹی ہوں۔ ان سے جو آپ کی گفتگو ہوئی ٗ میں نے سب سُنی۔ اور۔ اور۔ ‘‘
امین نے کہا :
’’اب اور کہنے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘
سعادت حسن منٹو



Post a Comment

نموذج الاتصال