بابو گوپی ناتھ


بابو گوپی ناتھ سے میری ملاقات سن چالیس میں ہُوئی۔ ان دنوں میں بمبئی کا ایک ہفتہ وار پرچہ ایڈٹ کیا کرتا تھا۔ دفتر میں عبدالرحیم سینڈو ایک ناٹے قد کے آدمی کے ساتھ داخل ہُوا۔ میں اس وقت لیڈ لکھ رہا تھا۔ سنیڈو نے اپنے مخصوص انداز میں بآواز بلند مجھے آداب کیا اور اپنے ساتھی سے متعارف کرایا۔
’’منٹو صاحب! بابو گوپی ناتھ سے ملیے۔ ‘‘
میں نے اُٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔ سینڈو نے حسبِ عادت میری تعریفوں کے پُل باندھنے شروع کردیے۔ بابو گوپی ناتھ تم ہندوستان کے نمبر ون رائٹر سے ہاتھ ملا رہے ہو۔ لکھتا ہے تو دھڑن تختہ ہو جاتا ہے لوگوں کا۔ ایسی ایسی کنٹی نیوٹلی ملاتا ہے کہ طبیعت صاف ہو جاتی ہے۔ پچھلے دنوں وہ کیا چٹکلا لکھا تھا آپ نے منٹو صاحب؟ مس خورشید نے کار خریدی۔ اللہ بڑا کارساز ہے۔ کیوں بابو گوپی ناتھ، ہے اینٹی کی پینٹی پو؟‘‘
عبدالرحیم سینڈو کے باتیں کرنے کا اندازہ بالکل نرالا تھا۔ کنٹی نیوٹلی۔ دھڑن تختہ اور اینٹی کی پینٹی پو ایسے الفاظ اس کی اپنی اختراع تھے جن کو وہ گفتگو میں بے تکلف استعمال کرتا تھا۔ میرا تعارف کرانے کے بعد وہ بابو گوپی ناتھ کی طرف متوجہ ہُوا جو بہت مرعوب نظر آتا تھا۔
’’آپ ہیں بابو گوپی ناتھ۔ بڑے خانہ خراب۔ لاہور سے جھک مارتے مارتے بمبئی تشریف لائے ہیں۔ ساتھ کشمیر کی ایک کبوتری ہے۔ ‘‘
بابو گوپی ناتھ مسکرایا۔ عبدالرحیم سینڈو نے تعارف کو ناکافی سمجھ کرکہا۔
’’نمبر ون بے وقوف ہوسکتا ہے تو وہ آپ ہیں۔ لوگ ان کے مسکا لگا کر روپیہ بٹورتے ہیں۔ میں صرف باتیں کرکے ان سے ہر روز پولسن بٹر کے دو پیکٹ وصول کرتا ہوں۔ بس منٹو صاحب یہ سمجھ لیجیے کہ بڑے انٹی فلو جسٹین قسم کے آدمی ہیں۔ آپ آج شام کو ان کے فلیٹ پر ضرور تشریف لائیے۔ ‘‘
بابو گوپی ناتھ نے جو خدا معلوم کیا سوچ رہا تھا، چونک کرکہا۔
’’ہاں ہاں، ضرورتشریف لائیے منٹو صاحب۔ ‘‘
پھر سینڈو سے پوچھا۔
’’کیوں سینڈو کیا آپ کچھ اس کا شغل کرتے ہیں؟‘‘
عبدالرحیم سینڈو نے زور سے قہقہہ لگایا۔
’’اجی ہر قسم کا شغل کرتے ہیں۔ تو منٹو صاحب آج شام کو ضرور آئیے گا۔ میں نے بھی پینی شروع کردی ہے، اس لیے کہ مفت ملتی ہے۔ ‘‘
سینڈو نے مجھے فلیٹ کا پتا لکھا دیا جہاں میں حسب وعدہ شام کو چھ بجے کے قریب پہنچ گیا۔ تین کمرے کا صاف ستھرا فلیٹ تھا جس میں بالکل نیا فرنیچر سجا ہوا تھا۔ سینڈو اور بابو گوپی ناتھ کے علاوہ بیٹھنے والے کمرے میں دو مرد اور دو عورتیں موجود تھیں جن سے سینڈو نے مجھے متعارف کرایا۔ ایک تھا غفار سائیں، تہمد پوش۔ پنجاب کا ٹھیٹ سائیں۔ گلے میں موٹے موٹے دانوں کی مالا۔ سینڈو نے اس کے بارے میں کہا۔
’’آپ بابو گوپی ناتھ کے لیگل ایڈوائزر ہیں۔ میرا مطلب سمجھ جائیے۔ جس آدمی کی ناک بہتی ہو یا جس کے منہ میں سے لعاب نکلتا ہو، پنجاب میں خدا کو پہنچا ہوا درویش بن جاتا ہے یہ بھی بس پہنچے ہُوئے ہیں یا پہنچنے والے ہیں۔ لاہور سے بابو گوپی ناتھ کے ساتھ آئے ہیں کیونکہ انھیں وہاں کوئی اور بے وقوف ملنے کی امید نہیں تھی۔ یہاں آپ بابو صاحب سے کریون اے کے سگریٹ اور سکاچ وسکی کے پیگ پی کر دُعا کرتے رہتے ہیں کہ انجام نیک ہو۔ ‘‘
غفار سائیں یہ سُن کر مسکراتا رہا۔ دوسرے مرد کا نام تھا غلام علی۔ لمبا تڑنگا جوان، کسرتی بدن، منہ پر چیچک کے داغ۔ اس کے متعلق سینڈو نے کہا۔
’’یہ میرا شاگرد ہے۔ اپنے استاد کے نقش قدم پر چل رہا۔ لاہور کی ایک نامی طوائف کی کنواری لڑکی اس پر عاشق ہو گئی۔ بڑی بڑی کنٹی نیوٹلیاں ملائی گئیں اس کو پھانسنے کے لیے، مگر اس نے کہا ڈو اور ڈائی، میں لنگوٹ کا پکا رہوں گا۔ ایک تکیے میں بات چیت پیتے کرتے بابو گوپی ناتھ سے ملاقات ہو گئی۔ بس اس دن سے ان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ ہر روز کریون اے کا ڈبہ اور کھانا پینا مقرر ہے۔ ‘‘
یہ سن کر غلام علی بھی مسکراتا رہا۔ گول چہرے والی ایک سرخ و سفید عورت تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ وہی کشمیر کی کبوتری ہے جس کے متعلق سینڈو نے دفتر میں ذکر کیا تھا۔ بہت صاف ستھری عورت تھی۔ بال چھوٹے تھے۔ ایسا لگتا تھا کٹے ہوئے ہیں مگر درحقیقت ایسا نہیں تھا۔ آنکھیں شفاف اور چمکیلی تھیں۔ چہرے کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ بے حد الہڑ اور ناتجربہ کار ہے۔ سینڈو نے اس سے تعارف کراتے ہوئے کہا۔
’’زینت بیگم۔ بابو صاحب پیار سے زینو کہتے ہیں۔ ایک بڑی خرانٹ نائکہ کشمیر سے یہ سیب توڑ کر لاہور لے آئی۔ بابو گوپی ناتھ کو اپنی سی آئی ڈی سے پتہ چلا اور ایک رات لے اڑے۔ مقدمے بازی ہوئی۔ تقریباً دو مہینے تک پولیس عیش کرتی رہی۔ آخر بابو صاحب نے مقدمہ جیت لیا اور اسے یہاں لے آئے۔ دھڑن تختہ!‘‘
اب گہرے سانولے رنگ کی عورت باقی رہ گئی تھی جو خاموش بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی۔ آنکھیں سرخ تھیں جن سے کافی بے حیائی مترشح تھی۔ بابو گوپی ناتھ نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ اور سینڈو سے کہا۔
’’اس کے متعلق بھی کچھ ہو جائے۔ ‘‘
سینڈو نے اس عورت کی ران پرہاتھ مارا اور کہا۔
’’جناب یہ ہے ٹین پوٹی، فل فوٹی۔ مسز عبدالرحیم سینڈو عرف سردار بیگم۔ آپ بھی لاہور کی پیداوار ہیں۔ سن چھتیس میں مجھ سے عشق ہوا۔ دو برسوں ہی میں میرا دھڑن تختہ کر کے رکھ دیا۔ میں لاہور چھوڑ کر بھاگا۔ بابو گوپی ناتھ نے اسے یہاں بلوا لیا ہے تاکہ میرا دل لگا رہے۔ اس کو بھی ایک ڈبہ کریون اے کا راشن میں ملتا ہے ہر روز شام کو ڈھائی روپے کا مورفیا کا انجیکشن لیتی ہے۔ رنگ کالا ہے۔ مگر ویسے بڑی ٹٹ فورٹیٹ قسم کی عورت ہے۔ ‘‘
سردار نے ایک ادا سے صرف اتنا کہا۔
’’بکواس نہ کر!‘‘
اس ادا میں پیشہ ور عورت کی بناوٹ تھی۔ سب سے متعارف کرانے کے بعد سینڈو نے حسب عادت میری تعریفوں کے پل باندھنے شروع کردیے۔ میں نے کہا۔
’’چھوڑو یار۔ آؤ کچھ باتیں کریں۔ ‘‘
سینڈو چلایا۔
’’بوائے۔ وسکی اینڈ سوڈا۔ بابو گوپی ناتھ لگاؤ ہوا ایک سبزے کو۔ ‘‘
بابو گوپی ناتھ نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سو سو کے نوٹوں کا ایک پلندا نکالا اور ایک نوٹ سینڈو کے حوالے کردیا۔ سینڈو نے نوٹ لے کر اس کی طرف غور سے دیکھا اور کھڑکھڑا کر کہا۔
’’او گوڈ۔ او میرے رب العالمین۔ وہ دن کب آئے گا جب میں بھی لب لگا کر یوں نوٹ نکالا کروں گا۔ جاؤ بھئی غلام علی۔ دو بوتلیں جانی واکر سٹل گوئنگ سٹرانگ کی لے آؤ۔ ‘‘
بوتلیں آئیں تو سب نے پینا شروع کی۔ یہ شغل دو تین گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران میں سب سے زیادہ باتیں حسب معمول عبدالرحیم نے کیں۔ پہلا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کرکے وہ چلایا۔
’’دھڑن تختہ!منٹو صاحب، وسکی ہو تو ایسی۔ حلق سے اُتر کر پیٹ میں
’’انقلاب، زندہ باد‘‘
لکھتی چلی گئی ہے۔ جیو بابو گوپی ناتھ! جیو۔ ‘‘
بابو گوپی ناتھ بے چارہ خاموش رہا۔ کبھی کبھی البتہ وہ سینڈو کی ہاں میں ہاں ملا دیتا تھا۔ میں نے سوچا اس شخص کی اپنی رائے کوئی نہیں ہے۔ دوسرا جو بھی کہے، مان لیتا ہے۔ ضعیف الاعتقادی کا ثبوت غفار سائیں موجود تھا جسے وہ بقول سینڈو اپنا لیگل ایڈوائزر بنا کر لایا تھا۔ سینڈو کا اس سے دراصل یہ مطلب تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس سے عقیدت تھی۔ یوں بھی مجھے دوران گفتگو میں معلوم ہوا کہ لاہور میں اس کا اکثر وقت فقیروں اور درویشوں کی صحبت میں کٹتا تھا۔ یہ چیز میں نے خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ کھویا کھویا سا تھا، جیسے کچھ سوچ رہا تھا۔ میں نے چنانچہ اس سے ایک بار کہا۔
’’بابو گوپی ناتھ کیا سوچ رہے ہیں آپ؟‘‘
وہ چونک پڑا۔
’’جی میں۔ میں۔ کچھ نہیں۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور زینت کی طرف ایک عاشقانہ نگاہ ڈالی۔
’’ان حسینوں کے متعلق سوچ رہا ہوں۔ اور ہمیں کیا سوچ ہو گی۔ ‘‘
سینڈو نے کہا۔
’’بڑے خانہ خراب ہیں، یہ منٹو صاحب۔ بڑے خانہ خراب ہیں۔ لاہور کی کوئی ایسی طوائف نہیں جس کے ساتھ بابو صاحب کی کنٹی نیوٹلی نہ رہ چکی ہو۔ ‘‘
بابو گوپی ناتھ نے یہ سُن کر بڑے بھونڈے انکسار کے ساتھ کہا۔
’’اب کمر میں وہ دم نہیں منٹو صاحب۔ ‘‘
اس کے بعد واہیات گفتگو شروع ہو گئی۔ لاہور کی طوائفوں کے سب گھرانے گنے گئے۔ کون ڈیرہ دار تھی، کون نٹنی تھی، کون کس کی نوچی تھی، نتھنی اُتارنے کا بابو گوپی ناتھ نے کیا دیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ گفتگو سردار، سینڈو، غفار سائیں اور غلام علی کے درمیان ہوتی رہی، ٹھیٹ لاہور کے کوٹھوں کی زبان میں۔ مطلب تو میں سمجھتا رہا مگر بعض اصطلاحیں سمجھ میں نہ آئیں۔ زینت بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ کبھی کبھی کسی بات پر مسکرا دیتی۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اسے اس گفتگو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہلکی وسکی کا ایک گلاس بھی نہیں پیا۔ بغیر کسی دلچسپی کے سگریٹ بھی پیتی تھی تو معلوم ہوتا تھا اسے تمباکو اور اس کے دھویں سے کوئی رغبت نہیں لیکن لطف یہ ہے کہ سب سے زیادہ سگریٹ اسی نے پیے۔ بابو گوپی ناتھ سے اسے محبت تھی، اس کا پتا مجھے کسی بات سے نہ ملا۔ اتنا البتہ ظاہر تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس کا کافی خیال تھا کیونکہ زینت کی آسائش کے لیے ہر سامان مہیا تھا۔ لیکن ایک بات مجھے محسوس ہوئی کہ ان دونوں میں کچھ عجیب سا کھنچاؤ تھا۔ میرا مطلب ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہونے کے بجائے کچھ ہٹے ہوئے سے معلوم ہوتے تھے۔ آٹھ بجے کے قریب سردار، ڈاکٹر مجید کے ہاں چلی گئی کیونکہ اسے مورفیا کا انجکشن لینا تھا۔ غفارسائیں تین پیگ پینے کے بعد اپنی تسبیح اُٹھا کر قالین پر سو گیا۔ غلام علی کو ہوٹل سے کھانا لینے کے لیے بھیج دیا گیا۔ سینڈو نے اپنی دلچسپ بکواس جب کچھ عرصے کے لیے بند کی تو بابو گوپی ناتھ نے جو اب نشے میں تھا، زینت کی طرف وہی عاشقانہ نگاہ ڈال کر کہا: منٹو! میری زینت کے متعلق آپ کا خیال کیا ہے؟ میں نے سوچا کیا کہوں۔ زینت کی طرف دیکھا تو وہ جھینپ گئی۔ میں نے ایسے ہی کہہ دیا:
’’بڑا نیک خیال ہے۔ ‘‘
بابو گوپی ناتھ ہو گیا۔
’’منٹو صاحب! ہے بھی بڑی نیک لوگ۔ خدا کی قسم نہ زیور کا شوق ہے نہ کسی اور چیز کا۔ میں نے کئی بار کہاجان من مکان بنوادوں؟ جواب کیا دیا، معلوم ہے آپ کو؟ کیا کروں گی مکان لے کر۔ میرا کون ہے۔ منٹو صاحب موٹر کتنے میں آجائے گی۔ ‘‘
میں نے کہا
’’مجھے معلوم نہیں۔ ‘‘
بابو گوپی ناتھ نے تعجب سے کہا۔
’’کیا بات کرتے ہیں آپ منٹو صاحب۔ آپ کو، اور کاروں کی قیمت معلوم نہ ہو۔ کل چلیے میرے ساتھ، زینو کے لیے ایک موٹر لیں گے۔ میں نے اب دیکھا ہے کہ بمبئی میں موٹر ہونی ہی چاہیے۔ ‘‘
زینت کا چہرہ رد عمل سے خالی رہا۔ بابو گوپی ناتھ کا نشہ تھوڑی دیرکے بعد بہت تیز ہو گیا۔ ہمہ تن جذبات ہوکر اس نے مجھ سے کہا:
’’منٹو صاحب! آپ بڑے لائق آدمی ہیں۔ میں تو بالکل گدھا ہوں۔ لیکن آپ مجھے بتائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ کل باتوں باتوں میں سینڈو نے آپ کا ذکرکیا۔ میں نے اسی وقت ٹیکسی منگوائی اور اس سے کہا مجھے لے چلو منٹو صاحب کے پاس۔ مجھ سے کوئی گستاخی ہو گئی ہوتومعاف کردیجیے گا۔ بہت گنہ گار آدمی ہوں۔ وسکی منگاؤں آپ کے لیے اور؟‘‘
میں نے کہا۔
’’نہیں نہیں۔ بہت پی چکے ہیں۔ ‘‘
وہ اور زیادہ جذباتی ہو گیا:
’’اور پیجیے منٹو صاحب!‘‘
یہ کہہ کر جیب سے سو سو کے نوٹوں کا پلندا نکالا اور ایک نوٹ جدا کرنے لگا۔ لیکن میں نے سب نوٹ اس کے ہاتھ سے لیے اور واپس اس کی جیب میں ٹھونس دیے:
’’سو روپے کا ایک نوٹ آپ نے غلام علی کو دیا تھا۔ اس کا کیا ہوا؟‘‘
مجھے دراصل کچھ ہمدردی سی ہو گئی تھی بابو گوپی ناتھ سے۔ کتنے آدمی اس غریب کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔ میرا خیال تھا بابو گوپی ناتھ بالکل گدھا ہے۔ لیکن وہ میرا اشارہ سمجھ گیا اور مسکرا کرکہنے لگا۔
’’منٹو صاحب! اس نوٹ میں سے جو کچھ باقی بچا، وہ یا تو غلام کی جیب سے گرپڑے گا یا۔ ‘‘
بابو گوپی ناتھ نے پورا جملہ بھی ادا نہیں کیا تھا کہ غلام علی نے کمرے میں داخل ہوکر بڑے دکھ کے ساتھ یہ اطلاع دی کہ ہوٹل میں کسی حرام زادے نے اس کی جیب سے سارے روپے نکال لیے۔ بابو گوپی ناتھ میری طرف دیکھ کر مسکرایا۔ پھر سو روپے کا ایک نوٹ جیب سے نکال کرغلام علی کو دے کر کہا۔
’’جلدی کھانا لے آؤ۔ ‘‘
پانچ چھ ملاقاتوں کے بعد مجھے بابو گوپی ناتھ کی صحیح شخصیت کا علم ہوا۔ پوری طرح توخیر انسان کسی کو بھی نہیں جان سکتا لیکن مجھے اس کے بہت سے حالات معلوم ہوئے جو بے حد دلچسپ تھے۔ پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ خیال کہ وہ پرلے درجے کا چغد ہے، غلط ثابت ہُوا۔ اس کواس امر کا پورا احساس تھا کہ سینڈو، غلام علی اور سردار وغیرہ جواس کے مصاحب بنے ہوئے تھے، مطلبی انسان ہیں۔ وہ ان سے جھڑکیاں، گالیاں سب سنتا تھا لیکن غصّے کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا:
’’منٹو صاحب! میں نے آج تک کسی کا مشورہ رد نہیں کیا۔ جب بھی کوئی مجھے رائے دیتا ہے، میں کہتاہوں سبحان اللہ۔ وہ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں۔ لیکن میں انھیں عقل مند سمجھتا ہوں اس لیے کہ ان میں کم از کم اتنی عقل تو تھی جومجھ میں ایسی بے وقوفی کو شناخت کرلیا جن سے ان کا اُلو سیدھا ہوسکتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں شروع سے فقیروں اور کنجروں کی صحبت میں رہا ہوں۔ مجھے ان سے کچھ محبت سی ہو گئی ہے۔ میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے سوچ رکھا ہے کہ جب میری دولت بالکل ختم ہو جائے گی تو کسی تکیے میں جا بیٹھوں گا۔ رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار بس یہ دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کو سکون ملتا ہے۔ رنڈی کا کوٹھا تو چھوٹ جائے گا اس لیے کہ جیب خالی ہونے والی ہے لیکن ہندوستان میں ہزاروں پیر ہیں۔ کسی ایک کے مزار میں چلا جاؤں گا۔ ‘‘
میں نے اس سے پوچھا۔
’’رنڈی کے کوٹھے اور تکیے آپ کوکیوں پسند ہیں؟‘‘
کچھ دیرسوچ کر اس نے جواب دیا۔
’’اس لیے کہ ان دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکہ ہی دھوکہ ہوتا ہے جو آدمی خود کو دھوکہ دینا چاہتا ہے اُس کے لیے ان سے اچھا مقام اور کیا ہو سکتا ہے۔ ‘‘
میں نے ایک اور سوال کیا۔
’’آپ کو طوائفوں کا گانا سُننے کا شوق ہے کیا آپ موسیقی کی سمجھ رکھتے ہیں۔ ‘‘
اس نے جواب دیا۔
’’بالکل نہیں اور یہ ا چھا ہے کیونکہ میں کن سری سے کن سری طوائف کے ہاں جا کر بھی اپنا سر ہلاسکتا ہوں۔ منٹو صاحب مجھے گانے سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن جیب سے دس یا سو روپے کا نوٹ نکال کر گانے والی کو دکھانے میں بہت مزا آتا ہے۔ نوٹ نکالا اور اس کو دکھایا۔ وہ اسے لینے کے لیے ایک ادا سے اُٹھی۔ پاس آئی تو نوٹ جراب میں اڑس لیا۔ اس نے جھک کر اسے باہر نکالا تو ہم خوش ہو گئے۔ ایسی بہت فضول فضول سی باتیں ہیں جو ہم ایسے تماش بینوں کو پسند ہیں، ورنہ کون نہیں جانتا کہ رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔ ‘‘
بابو گوپی ناتھ کا شجرہ نسب تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا معلوم ہوا کہ وہ ایک بہت بڑے کنجوس بنیے کا بیٹا ہے۔ باپ کے مرنے پر اسے دس لاکھ روپے کی جائیداد ملی جو اس نے اپنی خواہش کے مطابق اڑانا شروع کردی۔ بمبئی آتے وقت وہ اپنے ساتھ پچاس ہزارروپے لایا تھا۔ اس زمانے میں سب چیزیں سستی تھیں، لیکن پھربھی ہر روز تقریباً سو سوا سو روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ زینو کے لیے اس نے فئیٹ موٹر خریدی۔ یاد نہیں رہا، لیکن شاید تین ہزارروپے میں آئی تھی۔ ایک ڈرائیور رکھا لیکن وہ بھی لفنگے ٹائپ کا۔ بابو گوپی ناتھ کوکچھ ایسے ہی آدمی پسند تھے۔ ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا۔ بابو گوپی ناتھ سے مجھے تو صرف دلچسپی تھی، لیکن اسے مجھ سے کچھ عقیدت ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت میرا بہت زیادہ احترام کرتا تھا۔ ایک روز شام کے قریب جب میں فلیٹ پر گیا تو مجھے وہاں شفیق کو دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی۔ محمد شفیق طوسی کہوں تو شاید آپ سمجھ لیں کہ میری مراد کس آدمی سے ہے۔ یوں تو شفیق کافی مشہور آدمی ہے۔ کچھ اپنی جدت طراز گائکی کے باعث اور کچھ اپنی بذلہ سنج طبیعت کی بدولت۔ لیکن اس کی زندگی کا ایک حصّہ اکثریت سے پوشیدہ ہے۔ بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ تین سگی بہنوں کو یکے بعد دیگرے تین تین چار چار سال کے وقفے کے بعد داشتہ بنانے سے پہلے اس کا تعلق اس کی ماں سے بھی تھا۔ یہ بہت کم مشہور ہے کہ اس کو اپنی پہلی بیوی جو تھوڑے ہی عرصے میں مر گئی تھی، اس لیے پسند نہیں تھی کہ اس میں طوائفوں کے غمزے اور عشوے نہیں تھے۔ لیکن یہ تو خیر ہر آدمی جو شفیق طوسی سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہے، جانتا ہے کہ چالیس برس( یہ اس زمانے کی عمر ہے) کی عمر میں سینکڑوں طوائفوں نے اسے رکھا۔ اچھے سے اچھا کپڑا پہنا۔ عمدہ سے عمدہ کھانا کھایا۔ نفیس سے نفیس موٹر رکھی۔ مگر اس نے اپنی گرہ سے کسی طوائف پر ایک دمڑی بھی خرچ نہ کی۔ عورتوں کے لیے، خاص طور پر جو کہ پیشہ ور ہوں، اس کی بذلہ سنج طبیعت جس میں میراثیوں کے مزاح کی ایک جھلک تھی۔ بہت ہی جاذب نظر تھی وہ کوشش کے بغیر ان کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔ میں نے جب اسے زینت سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھا تو مجھے اس لیے حیرت نہ ہوئی کہ وہ ایسا کیوں کررہا ہو، میں نے صرف یہ سوچا کہ وہ دفعتہً یہاں پہنچا کیسے۔ ایک سینڈو اسے جانتا تھا مگر ان کی بول چال تو ایک عرصے سے بند تھی۔ لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ سینڈو ہی اسے لایا تھا۔ ان دونوں میں صلح صفائی ہو گئی تھی۔ بابو گوپی ناتھ ایک طرف بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ میں نے شاید اس سے پہلے ذ کر نہیں کیا، وہ سگریٹ بالکل نہیں پیتا تھا۔ محمد شفیق طوسی میراثیوں کے لطیفے سنا رہا تھا، جس میں زینت کسی قدر کم اور سردار بہت زیادہ دلچسپی لے رہی تھی۔ شفیق نے مجھے دیکھا اور کہا:
’’او بسم اللہ۔ بسم اللہ۔ کیا آپ کا گزر بھی اس وادی میں ہوتا ہے؟‘‘
سینڈو نے کہا:
’’تشریف لے آئیے عزرائیل صاحب یہاں دھڑن تختہ‘‘
میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ تھوڑی دیر گپ بازی ہوتی رہی۔ میں نے نوٹ کیا کہ زینت اور محمد شفیق طوسی کی نگاہیں آپس میں ٹکرا کرکچھ اور بھی کہہ رہی ہیں۔ زینت اس فن میں بالکل کوری تھی لیکن شفیق کی مہارت زینت کی خامیوں کو چھپاتی رہی۔ سردار، دونوں کی نگاہ بازی کو کچھ اس انداز سے دیکھ رہی تھی جیسے خلیفے اکھاڑے سے باہر بیٹھ کر اپنے پٹھوں کے داؤ پیچ کو دیکھتے ہیں۔ اس دوران میں میں بھی زینت سے کافی بے تکلف ہو گیا تھا وہ مجھے بھائی کہتی تھی جس پر مجھے اعتراض نہیں تھا۔ اچھی ملنسار طبیعت کی عورت تھی۔ کم گو۔ سادہ لوح۔ صاف ستھری۔ شفیق سے مجھے اس کی نگاہ بازی پسند نہیں آئی تھی۔ اوّل تو اس میں بھونڈا پن تھا۔ اس کے علاوہ۔ کچھ یوں کہیے کہ اس بات کا بھی اس میں دخل تھا کہ وہ مجھے بھائی کہتی تھی۔ شفیق اور سینڈو اُٹھ کر باہر گئے تو میں نے شاید بڑی بے رحمی کے ساتھ اس سے نگاہ بازی کے متعلق استفسار کیا کیونکہ فوراً اس کی آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو آگئے اور روتی روتی وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ بابو گوپی ناتھ جو ایک کونے میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا، اُٹھ کر تیزی سے اس کے پیچھے گیا۔ سردار نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے کچھ کہا لیکن میں مطلب نہ سمجھا۔ تھوڑی دیر کے بعد بابو گوپی ناتھ کمرے سے باہر نکلا اور
’’آئیے منٹو صاحب‘‘
کہہ کر مجھے اپنے ساتھ اندر لے گیا۔ زینت پلنگ پر بیٹھی تھی۔ میں اندر داخل ہوا تو وہ دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ کر لیٹ گئی۔ میں اور بابو گوپی ناتھ، دونوں پلنگ کے پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ بابو گوپی ناتھ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہنا شروع کیا۔
’’منٹو صاحب! مجھے اس عورت سے بہت محبت ہے۔ دو برس سے یہ میرے پاس ہے میں حضرت غوث اعظم جیلانی کی قسم کھا کر کہتا ہُوں کہ اس نے مجھے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ اس کی دوسری بہنیں، میرا مطلب ہے اس پیشے کی دوسری عورتیں دونوں ہاتھوں سے مجھے لُوٹ کر کھاتی رہیں مگر اس نے کبھی ایک زائد پیسہ مجھ سے نہیں لیا۔ میں اگر کسی دوسری عورت کے ہاں ہفتوں پڑا رہا تو اس غریب نے اپنا کوئی زیور گروی رکھ کرگزارا کیا میں جیسا کہ آپ سے ایک دفعہ کہہ چکا ہوں بہت جلد اس دنیا سے کنارہ کش ہونے والا ہوں۔ میری دولت اب کچھ دن کی مہمان ہے میں نہیں چاہتا اس کی زندگی خراب ہو۔ میں نے لاہور میں اس کو بہت سمجھایا کہ تم دوسری طوائفوں کی طرف دیکھو جو کچھ وہ کرتی ہیں، سیکھو۔ میں آج دولت مند ہوں۔ کل مجھے بھکاری ہونا ہی ہے۔ تم لوگوں کی زندگی میں صرف ایک دولت کافی نہیں۔ میرے بعد تم کسی اور کو نہیں پھانسو گی تو کام نہیں چلے گا۔ لیکن منٹو صاحب اس نے میری ایک نہ سنی۔ سارا دن شریف زادیوں کی طرح گھر میں بیٹھی رہتی۔ میں نے غفار سائیں سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا بمبئی لے جاؤ اسے۔ مجھے معلوم تھا کہ اس نے ایسا کیوں کہا۔ بمبئی میں اس کی دو جاننے والی طوائفیں ایکٹرسیں بنی ہوئی ہیں۔ لیکن میں نے سوچا بمبئی ٹھیک ہے دو مہینے ہو گئے ہیں اسے یہاں لائے ہوئے۔ سردار کو لاہور سے بُلایا ہے کہ اس کو سب گُر سکھائے غفار سائیں سے بھی یہ بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا۔ اس کو یہ خیال تھا کہ بابو تمہاری بے عزتی ہو گی۔ میں نے کہا تم چھوڑو اس کو۔ بمبئی بہت بڑا شہر ہے۔ لاکھوں رئیس ہیں۔ میں نے تمہیں موٹر لے دی ہے۔ کوئی اچھا آدمی تلاش کرلو۔ منٹو صاحب! میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں میری دلی خواہش ہے کہ یہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے، اچھی طرح ہوشیار ہو جائے۔ میں اس کے نام آج ہی بنک میں دس ہزار روپیہ جمع کرانے کو تیار ہوں۔ مگر مجھے معلوم ہے دس دن کے اندر اندر یہ باہر بیٹھی ہو گی سردار اس کی ایک ایک پائی اپنی جیب میں ڈال لے گی۔ آپ بھی اسے سمجھائیے کہ چالاک بننے کی کوشش کرے۔ جب سے موٹر خریدی ہے، سردار اسے ہر روز شام کو اپولو بندر لے جاتی ہے لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔ سینڈو آج بڑی مشکلوں سے محمد شفیق کو یہاں لایا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس کے متعلق؟‘‘
میں نے اپنا خیال ظاہر کرنا مناسب خیال نہ کیا، لیکن بابو گوپی ناتھ نے خود ہی کہا۔
’’اچھا کھاتا پیتا آدمی معلوم ہوتا ہے اور خوبصورت بھی ہے۔ کیوں زینو جانی۔ پسند ہے تمہیں؟‘‘
زینو خاموش رہی۔ بابو گوپی ناتھ سے جب مجھے زینت کو بمبئی لانے کی غرض و غایت معلوم ہُوئی تو میرا دماغ چکرا گیا۔ مجھے یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن بعد میں مشاہدے نے میری حیرت دُور کردی۔ بابو گوپی ناتھ کی دلی آرزو تھی کہ زینت بمبئی میں کسی اچھے مال دار آدمی کی داشتہ بن جائے یا ایسے طریقے سیکھ جائے جس سے وہ مختلف آدمیوں سے روپیہ وصول کرتے رہنے میں کامیاب ہوسکے۔ زینت سے اگر صرف چھٹکارا ہی حاصل کرنا ہوتا تو یہ کوئی اتنی مشکل چیز نہیں تھی۔ بابو گوپی ناتھ ایک ہی دن میں یہ کام کرسکتا تھا چونکہ اس کی نیت نیک تھی، اس لیے اس نے زینت کے مستقبل کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اس کو ایکٹرس بنانے کے لیے اس نے کئی جعلی ڈائریکٹروں کی دعوتیں کیں۔ گھر میں ٹیلی فون لگوایا۔ لیکن اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا۔ محمد شفیق طوسی تقریباً ڈیڑھ مہینہ آتارہا۔ کئی راتیں بھی اس نے زینت کے ساتھ بسر کیں لیکن وہ ایسا آدمی نہیں تھا جو کسی عورت کا سہارا بن سکے۔ بابو گوپی ناتھ نے ایک روز افسوس اور رنج کے ساتھ کہا۔
’’شفیق صاحب تو خالی خالی جنٹلمین ہی نکلے۔ ٹھسّہ دیکھیے، بے چاری زینت سے چار چادریں، چھ تکیے کے غلاف اور دو سو روپے نقد ہتھیا کر لے گئے۔ سنا ہے آج کل ایک لڑکی الماس سے عشق لڑا رہے ہیں۔ ‘‘
یہ درست تھا۔ الماس، نذیر جان پٹیالے والی کی سب سے چھوٹی اور آخری لڑکی تھی۔ اس سے پہلے تین بہنیں شفیق کی داشتہ رہ چکی تھیں۔ دو سو روپے جو اس نے زینت سے لیے تھے مجھے معلوم ہے الماس پر خرچ ہوئے تھے۔ بہنوں کے ساتھ لڑ جھگڑ کر الماس نے زہر کھا لیا تھا۔ محمد شفیق طوسی نے جب آنا جانا بند کردیا تو زینت نے کئی بار مجھے ٹیلی فون کیا اور کہا اسے ڈھونڈ کر میرے پاس لائیے۔ میں نے اسے تلاش کیا، لیکن کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ ایک روز اتفاقیہ ریڈیو اسٹیشن پر ملاقات ہوئی۔ سخت پریشانی کے عالم میں تھا۔ جب میں نے اس سے کہا کہ تمہیں زینت بلاتی ہے تو اس نے جواب دیا۔
’’مجھے یہ پیغام اور ذریعوں سے بھی مل چکا ہے۔ افسوس ہے، آج کل مجھے بالکل فرصت نہیں۔ زینت بہت اچھی عورت ہے لیکن افسوس ہے کہ بے حد شریف ہے۔ ایسی عورتوں سے جو بیویوں جیسی لگیں مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ‘‘
شفیق سے مایوسی ہوئی تو زینت نے سردار کے ساتھ اپولو بندر جانا شروع کیا۔ پندرہ دنوں میں بڑی مشکلوں سے کئی گیلن پٹرول پھونکنے کے بعد سردار نے دو آدمی پھانسے۔ ان سے زینت کو چار سو روپے ملے۔ بابو گوپی ناتھ نے سمجھا کہ حالات امید افزا ہیں کیونکہ ان میں سے ایک نے جو ریشمی کپڑوں کی مل کا مالک تھا، زینت سے کہا تھا کہ میں تم سے شادی کروں گا۔ ایک مہینہ گزر گیا لیکن یہ آدمی پھر زینت کے پاس نہ آیا۔ ایک روز میں جانے کس کام سے ہاربنی روڈ پر جارہا تھا کہ مجھے فٹ پاتھ کے پاس زینت کی موٹر کھڑی نظر آئی۔ پچھلی نشست پر محمد یاسین بیٹھا تھا۔ نگینہ ہوٹل کا مالک۔ میں نے اس سے پوچھا۔
’’یہ موٹر تم نے کہاں سے لی؟‘‘
یاسین مسکرایا۔
’’تم جانتے ہو موٹر والی کو۔ ‘‘
میں نے کہا۔
’’جانتا ہوں۔ ‘‘
’’تو بس سمجھ لو میرے پاس کیسے آئی۔ اچھی لڑکی ہے یار!‘‘
یاسین نے مجھے آنکھ ماری۔ میں مسکرادیا۔ اس کے چوتھے روز بابو گوپی ناتھ ٹیکسی پر میرے دفتر میں آیا۔ اس سے مجھے معلوم ہوا کہ زینت سے یاسین کی ملاقات کیسے ہوئی۔ ایک شام اپولوبندر سے ایک آدمی لے کر سردار اور زینت نگینہ ہوٹل گئیں۔ وہ آدمی تو کسی بات پر جھگڑا کرچلا گیا لیکن ہوٹل کے مالک سے زینت کی دوستی ہو گئی۔ بابو گوپی ناتھ مطمئن تھا کیونکہ دس پندرہ روز کی دوستی کے دوران میں یاسین نے زینت کو چھ بہت ہی عمدہ اور قیمتی ساڑھیاں لے دی تھیں۔ بابو گوپی ناتھ اب یہ سوچ رہا تھا کچھ دن اورگزر جائیں، زینت اور یاسین کی دوستی اور مضبوط ہو جائے تو لاہور واپس چلا جائے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ نگینہ ہوٹل میں ایک کرسیچین عورت نے کمرہ کرائے پر لیا۔ اس کی جوان لڑکی میموریل سے یاسین کی آنکھ لڑ گئی۔ چنانچہ زینت بے چاری ہوٹل میں بیٹھی رہتی اور یاسین اس کی موٹر میں صبح شام اس لڑکی کو گھماتا رہا۔ بابو گوپی ناتھ کو اس کا علم ہونے پر دُکھ ہوا۔ اس نے مجھ سے کہا۔
’’منٹو صاحب یہ کیسے لوگ ہیں۔ بھئی دل اچاٹ ہو گیا ہے تو صاف کہہ دو۔ لیکن زینت بھی عجیب ہے۔ ‘‘
اچھی طرح معلوم ہے کیا ہورہا ہے مگر منہ سے اتنا بھی نہیں کہتی، میاں! اگر تم نے اس کرسٹان چھوکری سے عشق لڑانا ہے تو اپنی موٹر کار کا بندوبست کرو، میری موٹر کیوں استعمال کرتے ہو۔ میں کیاکروں منٹو صاحب! بڑی شریف اور نیک بخت عورت ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ تھوڑی سی چالاک تو بننا چاہیے۔ ‘‘
یاسین سے تعلق قطع ہونے پر زینت نے کوئی صدمہ محسوس نہ کیا۔ بہت دنوں تک کوئی نئی بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔ ایک دن ٹیلی فون کیا تو معلوم ہوا بابو گوپی ناتھ، غلام علی اور غفار سائیں کے ساتھ لاہور چلا گیا، روپے کا بندوبست کرنے، کیونکہ پچاس ہزار ختم ہو گئے تھے۔ جاتے وقت وہ زینت سے کہہ گیا تھا کہ اسے لاہور میں زیادہ دن لگیں گے کیونکہ اسے چند مکان فروخت کرنے پڑیں گے۔ سردار کو مورفیا کے ٹیکوں کی ضرورت تھی۔ سینڈو کو پولسن مکھن کی۔ چنانچہ دونوں نے متحدہ کوشش کی اور ہر روز تین آدمی پھانس کر لے آتے۔ زینت سے کہا گیا کہ بابو گوپی ناتھ، واپس نہیں آئے گا، اس لیے اسے اپنی فکر کرنی چاہیے۔ سو سوا سو روپے روز کے ہو جاتے جن میں سے آدھے زینت کو ملتے باقی سینڈو اور سردار دبا لیتے۔ میں نے ایک دن زینت سے کہا یہ تم کیا کررہی ہو۔ اس نے بڑے الہڑ پن سے کہا۔
’’مجھے کچھ معلوم نہیں بھائی جان۔ یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں مان لیتی ہوں۔ ‘‘
جی چاہا کہ بہت دیر پاس بیٹھ کر سمجھاؤں کہ جو کچھ تم کررہی ہو، ٹھیک نہیں، سینڈو اور سردار اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے تمہیں بیچ بھی ڈالیں گے مگر میں نے کچھ نہ کہا۔ زینت اُکتا دینے والی حد تک بے سمجھ، بے امنگ اور بے جان عورت تھی۔ اس کم بخت کو اپنی زندگی کی قدر قیمت ہی معلوم نہیں تھی۔ جسم بیچتی مگر اس میں بیچنے والوں کا کوئی انداز تو ہوتا۔ واللہ مجھے بہت کوفت ہوتی تھی اسے دیکھ کر سگریٹ سے، شراب سے، کھانے سے، گھر سے، ٹیلی فون سے، حتیٰ کہ اس صوفے سے بھی جس پر وہ اکثر لیٹی رہتی تھی، اسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بابو گوپی ناتھ پورے ایک مہینے کے بعد لوٹا۔ وہاں گیا تو وہاں فلیٹ میں کوئی اور ہی تھا۔ سینڈو اور سردار کے مشورے سے زینت نے باندرہ میں ایک بنگلے کا بالائی حصہ کرائے پر لے لیا تھا۔ بابو گوپی ناتھ میرے پاس آیا تو میں نے اسے پورا پتہ بتا دیا۔ اس نے مجھ سے زینت کے متعلق پوچھا۔ جوکچھ مجھے معلوم تھا، میں نے کہہ دیا لیکن یہ نہ کہا کہ سینڈو اور سردار اس سے پیشہ کرارہے ہیں۔ بابو گوپی ناتھ اب کہ دس ہزار روپیہ اپنے ساتھ لایا تھا جواس نے بڑی مشکلوں سے حاصل کیا تھا۔ غلام علی اور غفار سائیں کو وہ لاہور ہی چھوڑ آیا تھا ٹیکسی نیچے کھڑی تھی۔ بابو گوپی ناتھ نے اصرار کیا میں بھی اس کے ساتھ چلوں۔ تقریباً ایک گھنٹے میں ہم باندرہ پہنچ گئے۔ بالی ہل پر ٹیکسی چڑھ رہی تھی کہ سامنے تنگ سڑک پر سینڈو دکھائی دیا۔ بابو گوپی ناتھ نے زور سے پکارا۔
’’سینڈو!‘‘
سینڈو نے جب بابو گوپی ناتھ کو دیکھا تو اس کے منہ سے صرف اتنا نکلا۔ دھڑن تختہ۔ بابو گوپی ناتھ نے اس سے کہا آؤ ٹیکسی میں بیٹھ جاؤ اور ساتھ چلو، لیکن سینڈو نے کہا ٹیکسی ایک طرف کھڑی کیجیے، مجھے آپ سے کچھ پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں۔ ٹیکسی ایک طرف کھڑی کی گئی۔ بابو گوپی ناتھ باہر نکلا تو سینڈو اسے کچھ دور لے گیا دیر تک ان میں باتیں ہوتی رہیں جب ختم ہوئیں تو بابو گوپی ناتھ اکیلا ٹیکسی کی طرف آیا۔ ڈرائیور سے اس نے کہا
’’واپس لے چلو!‘‘
بابو گوپی ناتھ خوش تھا۔ ہم دادر کے پاس پہنچے تو اس نے کہا۔
’’منٹو صاحب! زینو کی شادی ہونے والی ہے۔ ‘‘
میں نے حیرت سے کہا۔
’’کس سے؟‘‘
بابو گوپی ناتھ نے جواب دیا۔
’’حیدر آباد سندھ کا ایک دولت مند زمیندار ہے۔ خدا کرے وہ خوش رہیں۔ یہ بھی اچھا ہوا جو میں عین وقت پر آپہنچا۔ جو روپے میرے پاس ہیں، ان سے زینو کا زیور بن جائے گا۔ کیوں، کیا خیال ہے آپ؟‘‘
میرے دماغ میں اس وقت کوئی خیال نہ تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ حیدرآباد سندھ کا دولت مند زمیندار کون ہے، سینڈو اور سردارکی کوئی جعلسازی تو نہیں، لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہو گئی کہ وہ حقیقتاً حیدر آباد کا متمول زمیندار ہے جو حیدر آباد سندھ ہی کے ایک میوزک ٹیچر کی معرفت زینت سے متعارف ہوا۔ یہ میوزک ٹیچر زینت کو گانا سکھانے کی بے سود کوشش کیا کرتا تھا۔ ایک روز وہ اپنے مربی غلام حسین(یہ اس حیدرآباد سندھ کے رئیس کا نام تھا) کو ساتھ لے کر آیا۔ زینت نے خوب خاطر مدارات کی۔ غلام حسین کی پرزور فرمائش پر اس نے غالب کی غزل ؂ نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے گاکر سنائی۔ غلام حسین سو جان سے اس پر فریفتہ ہو گیا۔ اس کا ذکر میوزک ٹیچر نے زینت سے کیا۔ سردار اور سینڈو نے مل کرمعاملہ پکا کردیا اور شادی طے ہو گئی۔ بابو گوپی ناتھ خوش تھا۔ ایک دفعہ سینڈو کے دوست کی حیثیت سے وہ زینت کے ہاں گیا۔ غلام حسین سے اس کی ملاقات ہوئی۔ اس سے مل کر بابو گوپی ناتھ کی خوشی دگنی ہو گئی۔ مجھ سے اس نے کہا۔
’’منٹو صاحب! خوبصورت، نوجوان اور بڑا لائق آدمی ہے۔ میں نے یہاں آتے ہوئے داتا گنج بخشؒ کے حضور جا کر دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی۔ بھگوان کرے دونوں خوش رہیں!‘‘
بابو گوپی ناتھ نے بڑے خلوص اور بڑی توجہ سے زینت کی شادی کا انتظام کیا۔ دو ہزار کے زیور اور دو ہزار کے کپڑے بنوا دیے اور پانچ ہزار نقد دیے۔ محمد شفیق طوسی، محمد یاسین پروپرائیٹر نگینہ ہوٹل، سینڈو، میوزک ٹیچر، میں اور گوپی ناتھ شادی میں شامل تھے دلہن کی طرف سے سینڈو وکیل تھے۔ ایجاب و قبول ہوا تو سینڈو نے آہستہ سے کہا
’’دھڑن تختہ۔ ‘‘
غلام حسین سرج کا نیلا سوٹ پہنے تھے۔ سب نے اس کو مبارک باد دی جو اس نے خندہ پیشانی سے قبول کی۔ کافی وجیہہ آدمی تھا۔ بابو گوپی ناتھ اس کے مقابلے میں اس کے سامنے چھوٹی سی بٹیر معلوم ہوتا تھا۔ شادی کی دعوتوں پر خورد و نوش کا جو سامان بھی ہوتا ہے، بابو گوپی ناتھ نے مہیا کیا تھا۔ دعوت سے جب لوگ فارغ ہوئے تو بابو گوپی ناتھ نے سب کے ہاتھ دھلوائے۔ میں جب ہاتھ دھونے کے لیے آیا تو اس نے مجھ سے بچوں کے انداز سے کہا۔
’’منٹو صاحب! ذرا اندر جائیے اور دیکھیے زینو دلہن کے لباس میں کیسی لگتی ہے۔ ‘‘
میں پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ زینت سرخ زربفت کا شلوار کرتہ پہنے تھی۔ دوپٹہ بھی اسی رنگ کا تھا جس پر گوٹ لگی تھی چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ تھا حالانکہ مجھے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی سرخی بہت بُری معلوم ہوتی ہے مگر زینت کے ہونٹ سجے ہوئے تھے۔ اس نے شرما کر مجھے آداب کیا توبہت پیاری لگی لیکن جب میں نے دوسرے کونے میں ایک مسہری دیکھی جس پر پھول ہی پھول تھے تو مجھے بے اختیار ہنسی آگئی۔ میں نے زینت سے کہا یہ کیا مسخرہ پن ہے۔ زینت نے میری طرف بالکل معصوم کبوتری کی طرح دیکھا۔
’’آپ مذاق کرتے ہیں بھائی جان!‘‘
اس نے یہ کہا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ مجھے ابھی غلطی کا احساس بھی نہ ہوا تھا کہ بابو گوپی ناتھ اندر داخل ہوا۔ بڑے پیار کے ساتھ اس نے اپنے رومال کے ساتھ زینت کے آنسو پونچھے اور بڑے دکھ کے ساتھ مجھ سے کہا۔
’’منٹو صاحب! میں سمجھا تھا کہ آپ بڑے سمجھ دار اور لائق آدمی ہیں۔ زینو کا مذاق اُڑانے سے پہلے آپ نے کچھ تو سوچ لیا ہوتا۔ ‘‘
بابو گوپی ناتھ کے لہجے میں وہ عقیدت جو اسے مجھ سے تھی، زخمی نظر آئی لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس سے معافی مانگوں، اس نے زینت کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے خلوص کے ساتھ کہا۔
’’خدا تمہیں خوش رکھے!‘‘
یہ کہہ کر بابو گوپی ناتھ نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ ان میں ملامت تھی۔ بہت ہی دُکھ بھری ملامت۔ اور چلا گیا۔
سعادت حسن منٹو



Post a Comment

نموذج الاتصال