ابجی ڈُ ڈُو

’’مجھے مت ستائیے۔ خدا کی قسم، میں آپ سے کہتی ہوں، مجھے مت ستائیے‘‘
’’تم بہت ظلم کررہی ہو آج کل!‘‘
’’جی ہاں بہت ظلم کررہی ہوں‘‘
’’یہ تو کوئی جواب نہیں‘‘
’’میری طرف سے صاف جواب ہے اور یہ میں آپ سے کئی دفعہ کہہ چکی ہوں‘‘
’’آج میں کچھ نہیں سنوں گا‘‘
’’مجھے مت ستائیے۔ خدا کی قسم، میں آپ سے سچ کہتی ہوں، مجھے مت ستائیے میں چلانا شروع کردوں گی۔ ‘‘
’’آہستہ بولو۔ بچیاں جاگ پڑیں گی‘‘
’’آپ تو بچیوں کے ڈھیر لگانا چاہتے ہیں۔ ‘‘
’’تم ہمیشہ مجھے یہی طعنہ دیتی ہو۔ ‘‘
’’آپ کو کچھ خیال تو ہونا چاہیے۔ میں تنگ آچکی ہوں۔ ‘‘
’’درست ہے۔ لیکن۔ ‘‘
’’لیکن ویکن کچھ نہیں!‘‘
’’تمہیں میرا کچھ خیال نہیں۔ اصل میں اب تم مجھ سے محبت نہیں کرتیں۔ آج سے آٹھ برس پہلے جو بات تھی وہ اب نہیں رہی۔ تمہیں اب میری ذات سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ‘‘
’’جی ہاں‘‘
’’وہ کیا دن تھے جب ہماری شادی ہوئی تھی۔ تمہیں میری ہربات کا کتنا خیال رہتا تھا۔ ہم باہم کس قدر شیر و شکر تھے۔ مگر اب تم کبھی سونے کا بہانہ کردیتی ہو۔ کبھی تھکاوٹ کا عذر پیش کردیتی اور کبھی دونوں کان بند کرلیتی ہو۔ کچھ سنتی ہی نہیں۔ ‘‘
’’میں کچھ سننے کے لیے تیار نہیں!‘‘
’’تم ظلم کی آخری حد تک پہنچ گئی۔ ‘‘
’’مجھے سونے دیجیے۔ ‘‘
’’سو جائیے۔ مگر میں ساری رات کروٹیں بدلتا رہوں گا۔ آپ کی بلا سے!‘‘
’’آہستہ بولیے۔ ساتھ ہمسائے بھی ہیں‘‘
’’ہوا کریں‘‘
’’آپ کو تو کچھ خیال ہی نہیں۔ سنیں گے تو کیا کہیں گے۔ ‘‘
’’کہیں گے کہ اس غریب آدمی کو کیسی کڑی بیوی ملی ہے۔ ‘‘
’’اوہ ہو‘‘
’’آہستہ بولو۔ دیکھو بچی جاگ پڑی!‘‘
’’اللہ اللہ۔ اللہ جی اللہ۔ اللہ اللہ۔ اللہ جی اللہ۔ سو جاؤ بیٹے سو جاؤ۔ اللہ، اللہ۔ اللہ جی اللہ۔ خدا کی قسم آپ بہت تنگ کرتے ہیں، دن بھر کی تھکی ماندی کو سونے تو دیجیے!‘‘
’’اللہ، اللہ۔ اللہ جی، اللہ۔ اللہ اللہ۔ اللہ جی اللہ۔ تمہیں اچھی طرح سلانا بھی نہیں آتا۔ ‘‘
’’آپ کو تو آتا ہے نا۔ سارا دن آپ گھرمیں رہ کر یہی تو کرتے رہتے ہیں‘‘
’’بھئی میں سارا دن گھر میں کیسے رہ سکتا ہوں۔ جب فرصت ملتی ہے آجاتا ہوں اور تمہارا ہاتھ بٹا دیتا ہوں۔ ‘‘
’’میرا ہاتھ بٹانے کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں۔ آپ مہربانی کرکے گھر سے باہر اپنے دوستوں ہی کے ساتھ گلچھڑے اڑایا کریں۔ ‘‘
’’گل چھڑے؟‘‘
’’میں زیادہ باتیں نہیں کرنا چاہتی‘‘
’’اچھا دیکھو، میری ایک بات کا جواب دو۔ ‘‘
’’خدا کے لیے مجھے تنگ نہ کیجیے۔ ‘‘
’’کمال ہے میں کہاں جاؤں‘‘
’’جہاں آپ کے سینگ سمائیں چلے جائیے‘‘
’’لو اب ہمارے سینگ بھی ہو گئے‘‘
’’آپ چپ نہیں کریں گے‘‘
’’نہیں۔ میں آج بولتا ہی رہوں گا۔ خود سوؤں گا نہ تمہیں سونے دونگا‘‘
’’سچ کہتی ہوں، میں پاگل ہو جاؤں گی۔ لوگو یہ کیسا آدمی ہے۔ کچھ سمجھتا ہی نہیں۔ بس ہر وقت۔ ہر وقت۔ ہر وقت۔ ‘‘
’’تم ضرور تمام بچیوں کو جگا کر رہو گی۔ ‘‘
’’نہ پیدا کی ہوتیں اتنی!‘‘
’’پیدا کرنے والا میں تو نہیں ہوں۔ یہ تو اللہ کی دین ہے۔ اللہ، اللہ۔ اللہ جی، اللہ، اللہ۔ اللہ جی، اللہ۔ ‘‘
’’بچی کو اب میں نے جگایا تھا؟‘‘
’’مجھے افسوس ہے!‘‘
’’افسوس ہے، کہہ دیا۔ چلو چھٹی ہوئی۔ گلا پھاڑ پھاڑ کرچلائے چلے جا رہے ہیں۔ ہمسائیگی کا کچھ خیال ہی نہیں لوگ کیا کہیں گے اسکی پروا ہی نہیں۔ خدا کی قسم میں عنقریب ہی دیوانی ہو جاؤں گی!‘‘
’’دیوانے ہوں تمہارے دشمن‘‘
’’میری جان کے دشمن تو آپ ہیں‘‘
’’تو خدا مجھے دیوانہ کرے‘‘
’’وہ تو آپ ہیں!‘‘
’’میں دیوانہ ہوں، مگر تمہارا‘‘
’’اب جونچلے نہ بگھاریئے‘‘
’’تم تو نہ یوں مانتی ہو نہ ووں‘‘
’’میں سونا چاہتی ہوں‘‘
’’سو جاؤ، میں پڑا بکواس کرتا رہوں گا‘‘
’’یہ بکواس کیا اشد ضروری ہے‘‘
’’ہے تو سہی۔ ذرا ادھر دیکھو۔ ‘‘
’’میں کہتی ہوں، مجھے تنگ نہ کیجیے۔ میں رو دوں گی‘‘
’’تمہارے دل میں اتنی نفرت کیوں پیدا ہو گئی۔ میری ساری زندگی تمہارے لیے ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ مجھ سے کوئی خطا ہوئی ہو تو بتا دو۔ ‘‘
’’آپ کی تین خطائیں یہ سامنے پلنگ پر پڑی ہیں‘‘
’’یہ تمہارے کوسنے کبھی ختم نہیں ہوں گے‘‘
’’آپ کی ہٹ کب ختم ہو گی؟‘‘
’’لو بابا میں تم سے کچھ نہیں کہتا۔ سو جاؤ۔ میں نیچے چلا جاتا ہوں۔ ‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’جہنم میں‘‘
’’یہ کیا پاگل پن ہے۔ نیچے اتنے مچھر ہیں، پنکھا بھی نہیں۔ سچ کہتی ہوں، آپ بالکل پاگل ہیں۔ میں نہیں جانے دونگی آپ کو‘‘
’’میں یہاں کیا کروں گا۔ مچھر ہیں پنکھا نہیں ہے، ٹھیک ہے۔ میں نے زندگی کے بُرے دن بھی گزارے بھی ہیں۔ تن آسان نہیں ہوں۔ سو جاؤں گا صوفے پر‘‘
’’سارا وقت جاگتے رہیں گے‘‘
’’تمہاری بلا سے
’’میں نہیں جانے دوں گی آپ کو۔ بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں‘‘
’’میں مر نہیں جاؤں گا۔ مجھے جانے دو‘‘
’’کیسی باتیں منہ سے نکالتے ہیں!۔ خبردار جو آپ گئے!‘‘
’’مجھے یہاں نیند نہیں آئے گی‘‘
’’نہ آئے‘‘
’’یہ عجیب منطق ہے۔ میں کوئی لڑجھگڑ کر تو نہیں جارہا‘‘
’’لڑائی جھگڑا کیا ابھی باقی ہے۔ خدا کی قسم آپ کبھی کبھی بالکل بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ اب یہ خبط سر میں سمایا ہے کہ میں نیچے گرمی اور مچھروں میں جا کر سوؤں گا۔ کوئی اور ہوتی تو پاگل ہو جاتی۔ ‘‘
’’تمہیں میرا بڑا خیال ہے‘‘
’’اچھا بابا نہیں ہے۔ آپ چاہتے کیا ہیں؟‘‘
’’اب سیدھے راستے پر آئی ہو‘‘
’’چلیے ہٹیے۔ میں کوئی راستہ واستہ نہیں جانتی۔ منہ دھوکے رکھیے اپنا‘‘
’’منہ صبح دھویا جاتا ہے۔ لو، اب من جاؤ‘‘
’’توبہ!‘‘
’’ساڑھی پر وہ بورڈر لگ کر آگیا؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’عجب الو کا پٹھا ہے درزی۔ کہہ رہا تھا آج ضرور پہنچا دے گا۔ ‘‘
’’لے کر آیا تھا، مگر میں نے واپس کردی۔ ‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ایک دو جگہ جھول تھے۔ ‘‘
’’اوہ۔ اچھا، میں نے کہا، کل
’’برسات‘‘
دیکھنے چلیں گے۔ میں نے پاس کا بندوبست کرلیا ہے۔ ‘‘
’’کتنے آدمیوں کا؟‘‘
’’دو کا۔ کیوں؟‘‘
’’باجی بھی جانا چاہتی تھیں۔ ‘‘
’’ہٹاؤ باجی کو پہلے ہم دیکھیں گے پھر اس کو دکھا دیں گے۔ پہلے ہفتے میں پاس بڑی مشکل سے ملتے ہیں۔ چاندنی رات میں تمہارا بدن کتنا چمک رہا ہے‘‘
’’مجھے تو اس چاندنی سے نفرت ہے۔ کم بخت آنکھوں میں گھستی ہے۔ سونے نہیں دیتی‘‘
’’تمہیں تو بس ہر وقت سونے ہی کی پڑی رہتی ہے‘‘
’’آپ کو بچیوں کی دیکھ بھال کرنا پڑے تو پھر پتا چلے۔ آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ ایک کے کپڑے بدلو، تو دوسری کے میلے ہو جاتے ہیں۔ ایک کو سلاؤ، دوسری جاگ پڑتی ہے، تیسری نعمت خانے کی غارتگری میں مصروف ہوتی ہے۔ ‘‘
’’دو نوکر گھر میں موجود ہیں‘‘
’’نوکر کچھ نہیں کرتے‘‘
’’لے آؤں، نیچے سے؟‘‘
’’جلدی جائیے رونا شروع کردیگی‘‘
’’جاتا ہوں!‘‘
’’میں نے کہا، سنئے۔ آگ جلا کر ذرا کنکنا کرکیجیے گا دودھ‘‘
’’اچھا، اچھا۔ سن لیا ہے!‘‘
13جون1950ء
سعادت حسن منٹو

Post a Comment

نموذج الاتصال