قدرت کا یہ اصول ہے
کہ جس چیز کی مانگ نہ رہے ٗ وہ خود بخود یا تو رفتہ رفتہ بالکل نابود ہو جاتی ہے ٗ
یا بہت کم یاب۔ اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے سوچیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہاں
سے کتنی اجناس غائب ہو گئی ہیں۔ اجناس کو چھوڑئیے ٗ فیشن لے لیجیے۔ کئی آئے اور
کئی دفن ہوئے ٗ معلوم نہیں کہاں۔ دنیا کا یہ چکر بہر صورت اسی طرح چلتا رہتا ہے۔
ایک آتا ہے ٗ ایک جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لڑکیاں انگیا کا استعمال بہت معیوب
سمجھتی تھیں ٗ مگر اب یہ بہت ضروری سمجھا جاتا ہے کہ سہارا ہے۔ امریکہ اور
انگلستان سے طرح طرح کی انگیاں آرہی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں کہ ان میں کوئی اسٹریپ نہیں
ہوتا۔ ایک انگیا جو سب سے قیمتی ہے
’’میڈن فوم‘‘
کہلاتی ہے اسے کوئی
بُڑھیا بھی پہن لے تو جوان دکھائی دیتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ شدید انگیا نور جہاں
فلم ایکٹریس نے
’’چن وے‘‘
میں پہنی تھی جس کی
نمائش سے میرے جمالیاتی ذوق کو بہت صدمہ پہنچا تھا مگر میں کیا کرتا۔ ہر شخص کو
اپنی پسند کی چیز کھانے اور پہننے کی آزادی ہے۔ تلون انسان کی فطرت ہے۔ وہ کبھی
ایک چیز پر قائم نہیں رہتا اسی لیے اس کے گردو پیش کا ماحول بھی بدلتا رہتا ہے اگر
آج اسے مرغیاں مرغوب ہیں تو مارکیٹ میں لاکھوں مرغیاں ایک دم آ جائیں گی۔ لیکن جب
اس کا دل ان سے اُکتا جائے گا۔ تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مرغیاں یا تو انڈے
دینا بند کر دیں گی۔ یا اسے سئیں گی نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر لوگ پانی پینا
بند کر دیں تو سارے کنویں خشک ہو جائیں۔ دریا اپنے کو بیکار سمجھ کر اپنا رُخ بدل
لیں۔ میں آج سے پندرہ برس پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ آرگنڈی ( جسے رفل کہا جاتا تھا
) کی بنی بنائی قمیصوں کا رواج عورتوں میں عام تھا لیکن دو تین برسوں کے بعد یہ
قمیصیں ایسے غائب ہوئیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اتنے برس گزر چکے تھے مگر اب یہ
کپڑا جو حیوانوں کی کھال کے مانند اکڑا ہوتا تھا۔ کسی عورت کے بدن پر نظر نہیں
آتا۔ ظاہر ہے کہ اس کا بنانا یا تو یکسر بند کر دیا گیا ہے۔ یا بہت کم مقدار میں
تیار کیا جاتا ہے۔ میں اب اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ہم
جنسیت کا بازار پنجاب میں ہر جگہ گرم تھا۔ مردوں کی اکثریت اس غیر فطری فعل سے شغل
فرماتی تھی۔ اور ایسے لڑکے بہ افراط موجود تھے جن کی ادائیں دیکھ کر نوخیز لڑکیاں
بھی شرمائیں۔ ان کی چال ڈھال کچھ ایسی قیامت خیز ہوتی تھی کہ تعیش پسند مرد۔ اپنی
عورتوں کو بھول جاتے تھے۔ میں اسی زمانے کا ذکر کر رہا ہوں۔ جب لڑکیوں کے بدلے ان
کی مخالف جنس کا دور دورہ تھا۔ میں اپنے مکان کی بیٹھک میں اپنے ایک ہندو دوست کے
ساتھ تاش کھیل رہا تھا کہ باہر شور و غل کی آوازیں سنائی دیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا
کوئی بہت بڑا ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ امر تسر میں ہنگامے ہونا ان دنوں معمولی بات
تھی۔ میں نے سوچا کہ ہندو مسلم فساد ہو گیا ہے لیکن اپنے اس اندیشے کا ذکر ہندو
دوست سے نہ کیا جو میرا ہم جماعت تھا۔ ہم دونوں گلی سے باہر نکلے۔ دیکھا کہ بازار
میں سب دوکانیں بند ہیں۔ بڑی حیرت ہوئی کہ ماجرا کیا ہے۔ ہم گلی کے باہر کھڑے تھے
کہ اتنے میں شہر کا ایک بہت بڑا غنڈا آیا۔ اس کے ہاتھ میں ہاکی تھی۔ خون سے لتھڑی
ہوئی تھی۔ اس نے مجھے سلام کیا۔ اس لیے کہ وہ مجھے پہچانتا تھا کہ میں ایک ذی اثر
آدمی کا بیٹا ہوں۔ سلام کرنے کے بعد اس نے میرے دوست کی طرف دیکھا اور مجھ سے
مخاطب ہوا:
’’میاں صاحب۔ بابوجی سے
کہیے کہ یہاں کھڑے نہ رہیں۔ آپ انہیں اپنے مکان میں لے جائیں۔
‘‘
بعد میں معلوم ہوا کہ
جو خون خرابہ ہوا، اس کا باعث میرا دوست تھا‘ اس کے کئی طالب تھے۔ دو پارٹیاں بن
گئی تھیں۔ جن میں اس کی وجہ سے لڑائی ہوئی جس میں کئی آدمی زخمی ہوئے۔ شہر کا جو
سب سے بڑا غنڈا تھا، چوتھے پانچویں روز اسے دوسری پارٹی نے اس قدر زخمی کر دیا کہ دس
دن اسے ہسپتال میں رہنا پڑا جو اس کی غنڈا گردی کا سب سے بڑا ریکارڈ تھا۔ اہلِ
لاہور اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ یہاں ایک لڑکا ٹینی سنگھ کے نام سے منسوب تھا۔ جو
گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا۔ اس کے ایک پرستار نے اسے ایک بہت بڑی موٹر کار دے
رکھی تھی۔ وہ اس میں بڑے ٹھاٹ سے آتا اور دوسرے لڑکے جو اسی کے زُمرے میں آتے تھے۔
بہت جلتے۔ مگر لاہور میں اس وقت ٹینی سنگھ کا ہی طوطی بولتا تھا۔ میں نے اس کو
دیکھا۔ واقعی خوبصورت تھا۔ اب یہ حال ہے کہ کوئی ٹینی سنگھ نظر نہیں آتا۔ کالجوں
میں چلے جائیے ٗ وہاں آپ کو ایسا کوئی لڑکا نظر نہیں آئے گا جس میں نسوانیت کے
خلاف کوئی چیلنج ہو، اس لیے کہ اب ان کی جگہ لڑکیوں نے لے لی ہے۔ قدرت نے ان کی
انتہا کر دی۔
سعادت حسن منٹو