اسلامیات ۔ نوٹس
قرآن کیا ہے؟ (تعارفِ قرآن)
قرآنِ مجید اللہ رب العزت کا کلامِ پاک ہے جو اس نے اشرف الملئکتہ حضرت جبریل امین علیہ السلام کے ذریعے سے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہﷺپر نازل فرمایا۔ اس اعتبار سے یہ بھی آخری پیغمبر کی طرح آخری آسمانی کتاب ہے۔ جس طرح رسول اللہﷺکے بعد کوئی نبی نہیںآنے والا، اسی طرح قرآن کریم کے بعد کوئی آسمانی کتاب یا وحی کسی پر نازل نہیں ہو گی۔ اسی لیے قرآن کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لیے نصیحت قرار دیا: ’’یہ قرآن لوگوں کے لئے راہنما ہے اس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور یہ حق و باطل کو الگ الگ کرنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ البقر)
قرآن وہ نسخہءِ سفا ہے جس کی تلاوت کرنا، جس کا سننا، سنانا، جس کا سیکھنا سکھانا، جس پر عمل کرنا اور جس کی حیثیت سے نشرو اشاعت کی خدمت کرنا دنیا و آخرت کی عظیم سعادت ہے۔
لغت کی رو سے قرآن دو لفظ سے ماخوذ ہو سکتا ہے، پہلا لفظ قِراءٗ ۃً ہے، اس کے معنٰی پڑھنے کے ہیں اور دوسرا لفظ قِرآناً ہے، جس کے معنی جمع کرنے کے ہیں ۔ پہلے معنٰی کے اعتبار سے قرآن کو قرآن اس لئے کہتے ہیں، کہ وہ بار بار پڑھا جاتا ہے اور نہایت کثر سے اس کی تلاوت کی جاتی ہے اور دوسرے معنی کے اعتبار سے قرآن کو قرآن اس لئے کہتے ہیں کہ وہ سورتوں کو باہم ملاتا اور جوڑتا ہے۔ (لسان العرب لابن منظور، ۱: ۱۲۸،۱۲۹)
قرآن کریم کے نزول کا کل دورانیہ 23سال اور پانچ ماہ ہے۔ قرآن پاک میں کل آیات 6666، سورتیں 114، تیس پارے، 323760حروف، رکو 540 ، زَبر 53223، زِیر 39582، پیش 8804، مکی سوتیں 79 اور 35مدنی سورتیں، 7منزلیں جبکہ 14سجدے ہیں۔
قرآن پاک میں لفظ اللہ 2584بار آیا ہے۔ پہلی وحی میں پانچ آیات نازل ہوئی، پہلی سورۃِ خلق، دوسری سورۃ مدثر اور سورۃ النساء آخری سورت تھی۔
حجاج بن یوسف (جو کہ کوفہ کا گورنر تھا ) نے قرآن پاک میں اعراب (زِیر ،زَبر، پیش) لگائے۔
قرآن کریم قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے کتاب ہدایت اور دستور حیات ہے۔ جن افراد یا اقوام نے اس سے اپنا تعلق جوڑا، اس سے رہنمائی حاصل کی اور اسے اپنا دستور العمل بنایا، وہ یقیناً دین و دنیا کی سعادتوں سے ہم کنار اور اس سے اعراض و تغافل کرنے والے ذلیل وخوار ہوں گے جیسے رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو بلندی عطا فرماتا ہے اور کچھ دوسروں کو پستی میں دھکیل دیتا ہے۔ ‘‘
یہ کتاب مقدس اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے، جو ہمارے لئے مکمل ضابطِ حیات اور دنیا و آخرت کی فلاح کی ضامن ہے، یہ وہ جس کی یہ شان بیان ہوئی:
’’اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شکت نہیں، پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے‘‘ (البقرہ ۲:۲)
فضائلِ قرآنِ پاک:
قرآن پاک کی تمام آیات ہمارے لئے ضابطہِ حیات ہیں، حضورِ ﷺ نے فرمایا جس کا دل قرآن سے خالی ہے وہ ایسے گھرانے کے مترادف ہے جو رونک سے خالی ہو۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے اللہ کی کتاب (قرآن مجید) کا ایک حرف پڑھا، اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’اس مومن کی مثال جو قرآن کریم پڑھتا ہے، میٹھے لیموں (نارنگی) کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور اس کا ذائقہ بھی میٹھا ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی طرح ہے جس کی خوشبو نہیں اور اس کا ذائقہ میٹھا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے، خوشبودار پودے (جیسے نازبو، یاسمین وغیرہ) کی طرح ہے جس کی خوشبو اچھی ہے اور اس کا ذائقہ تلخ ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، اندرائن (تمہ) کی طرح ہے جس میں خوشبو نہیں اور اس کا ذائقہ کڑوا ہے۔ ‘‘
(صحیح البخاری،باب ذکرِ الطعام ح:۵۴۲۷)
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پڑھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا مومن تو خوش رنگ اور خوش ذائقہ پھل کی طرح عند اللہ بھی مقبول ہے اور لوگوں میں بھی اس کی عزت ہے اور جو مومن قرآن نہیں پڑھتا تاہم قرآن کا عامل ہے، اللہ کے ہاں اور لوگوں کی نظروں میں بھی اچھا ہے اور قرآن پڑھنے والے منافق (یا فاجر) کا ظاہر اچھا ہے لیکن باطن گندا اور تاریک ہے اور آخر میں اس منافق کا ذکر ہے جو قرآن نہیں پڑھتا، اس کا ظاہر اور باطن دونوں ناپاک ہیں۔
ایک اور حدیث میں، جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے، رسولﷺنے فرمایا:
’’صاحب قرآن (قرآن پڑھنے اور اسے حفظ کرنے والے) سے (قیامت کے دن) کہا جائے گا پڑھتا جا اور (درجے) چڑھتا جا اور اس طرح آہستہ آہستہ تلاوت کر جیسے تو دنیا میں ترتیل سے پڑھتا تھا پس تیرا مقام وہ ہو گا جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہو گی۔ ‘‘
(جامع الترمذی، فضائل القرآن، باب ان الذی لیس فی جوفہ من القرآن کالبیت الخرب ح:۲۹۱۴)
مذکورہ احادیث سے واضح ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرنا، اسے حفظ کرنا، اس پر عمل کرنا، اس کی تفہیم وتدریس کے حلقے قائم کرنا، اس کی تعلیم و تعلم سے وابستہ ہونا، اس کی نشر و اشاعت اور تبلیغ و دعوت کا اہتمام کرنا، اس کے ساتھ راتوں کو قیام کرنا اور اس کا آپس میں دور کرنا، یہ سب کا م نہایت پسندیدہ اور بڑے فضیلت والے ہیں۔ قیامت کے دن یہ سب وابستگان قرآن اللہ کے خصوصی قرب اور اس کی رضا سے بہرہ ور، اس کی رحمت و مغفرت سے شاد کام اور جنت کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہوں گے اور ظاہر بات ہے کہ اللہ نے جن حاملین قرآن کے لیے یہ اخروی فضیلتیں رکھی ہیں، وہ دنیا میں اپنے قرآن پر عمل کرنے والوں کو ذلیل ورسوا نہیں کرسکتا بلکہ وہ ان کو دنیا میں بھی عزت و وقار اور تفوق و غلبہ عطا کرنے پر قادر ہے۔ مسلمان قرآن پر عمل کر کے تو دیکھیں ۔
عقائدِ اور ارکانِ اسلام:
عقیدہ کے معنی باندھنا یا باندھ دینا کے ہیں،جبکہ ایمان کے لغوی معنی یقین و تصدیق کے ہیں۔ قرآن میں لفظ عقیدہ نہیں بلکہ ایمان کا استعمال ہوا ہے۔ اسلام پر ایمان لانے کے پانچ بنیادی ارکان ہیں جن میں توحید، نماز، روزہ، زکواۃ اور حج شامل ہیں۔
اسلام کا پہلا رکن: توحید ورسالت کا اقرار (کلمہ طیبہ)
اسلام کا پہلا رکن دو حصوں پر مشتمل ہے۔حصہ اول’’ توحید ‘‘کہلاتا ہے۔یعنی دل اور زبان سے اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں،وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔زندگی اور موت کا وہی مالک ہے۔اولاد دینے والا ،رزق پہنچانے والااور نفع و نقصان کا وہی مالک ہے۔صرف وہی مختار کل ہے باقی سب عاجز بندے ہیں۔کوئی نبی،ولی،فرشتہ یا بزرگ اللہ کی ذات یا صفات اور حقوق و افعال میں اس کا شریک وہمسر نہیں۔وہ اپنی ذات کی طرح صفات میں بھی یکتا ہے۔توحید کے برعکس عقیدہ کو شرک کہا جاتا ہے۔
اسلام کے پہلے رکن کا دوسرا حصہ ’’رسالت‘‘ کہلاتا ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی راہنمائی کے لئے ہر زمانہ میں انبیاء ورسل مبعوث فرمائے یہ سلسلہ سیدنا آدم سے شروع ہوا اور محمدﷺاس سلسلہ کی آخری کڑی ہیں۔آپ قیامت تک کے تمام انسانوں کے لئے نبی ورسول بن کر آئے۔آپ کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی و رسول نہیں آئے گا۔
اسلام کا دوسرا رکن:اقامت صلوٰۃ
کلمہ پڑھ لینے کے بعد ایک مسلمان پر سب سے پہلے نماز کا فریضہ عائد ہو تا ہے۔دین اسلام میں نماز کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔قرآن مجید میں سینکڑوں با رنماز کا حکم آیا ہے۔اور بیسیوں جگہ نماز کو اہل ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے۔قیامت والے دن سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا۔
اسلام کا تیسرا رکن:رمضان کے روزے
مسلمانوں پر سال بھر میں رمضان المبارک کے ایک مہینہ میں روزے رکھنا فرض ہے،روزہ ہر عاقل ،بالغ،صحت مند اور باشعورمسلمان مرد وعورت پر فرض ہے۔صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات پر کنٹرول رکھنے کا نام روزہ ہے۔روزہ انسان کو متقی اور پرہیز گار بناتا ہے۔مسافر اور مریض کو اجازت ہے کہ وہ روزہ چھوڑدیں البتہ بعد از رمضان ان روزوں کی قضائی دینی ہو گی۔روزے کی بڑی فضیلت اور ثواب ہے۔
اسلام کا چوتھارکن:زکوٰۃ
زکوٰۃ کا لغوی معنی نشو ونما اور پاک کرنا ہے۔جو لوگ صاحب حیثیت ہوں ان پر اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے کہ وہ اپنی دولت میں سے مخصوص حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔تاکہ دولت گردش کرتی رہے اور مالداروں کے دل میں دولت کی محبت گھر نہ کر جائے۔
اسلام کا پانچواں رکن:حج
جو شخص صاحب استطاعت ہو ،یعنی اپنے اہل وعیال اورزیر کفالت اشخاص کی جملہ ضروریات پوری کرنے کے بعد سفر بیت اللہ کا متحمل ہو اس پر لازم ہے کہ وہ ایام حج میں اللہ تعالیٰ کے گھر جاکرمتعلقہ مناسک ادا کرے۔حج کا بہت ثواب ہے۔
ان پانچوں ارکان کو دین اسلام میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔جس طرح عمارت کے استحکام کے لئے بنیادوں کی گہرائی اور مضبوطی ضروری ہے اسی طرح اسلام کی پختگی بھی گہرے اور مضبوط ایمان کے بغیر نا ممکن ہے۔اور جس طرح عمارت کی تزئین وآرائش کے لئے سجاوٹ کا سامان ضروری ہوتا ہے اسی طرح عمارت اسلام کی آرائش بھی اعمال صالحہ سے ہوتی ہے۔بلکہ بعض اہل علم کے بقول اعمال کے بغیر ایمان کا وجود ہی عنقا ہے۔اسی لئے آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا:’’اسلام کی بنیاد ان پانچ چیزوں پر ہے۔‘‘اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی عدم موجودگی میںیہ عمارت ہی سرے سے غائب ہو جائے گی۔
توحید قرانی آیات کی روشنی میں :
قرآن میں متعدد بار اللہ عزوجل کی واحدانیت کا تذکرہ ہے ۔ ’سورۃ اخلاص‘ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
ترجمہ: (اے نبیِ مکرم آپ )کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے، معبودِ بر حق ہے، وہ نہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسفر نہیں ۔
عقیدہِ رسالت:
توحید کے ساتھ اسلام کا ا بنیادی عقیدہ، عقیدہ رسالت ہے۔ اسلام کی اصطلاح میں رسول اس کو کہتے ہیں جو اللہ کاپیغام اللہ کے بندوں کو پہنچائے۔ جو لوگ منصب رسالت پر سرفراز کئے گئے، اللہ تعالی کی طرف سے ان کو غیر معمولی علم، تدبر، قوت فیصلہ اور نور بصیرت عطا کیا گیا۔ انہوں نے جو دعوت پیش کی علم اور دلیل کے ساتھ پیش کی، اسی لیے ایک رسول اور فلسفی میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ فلسفی جو کچھ کہتا ہے وہ عقل و ظن کی بنیاد پر کہتا ہے جبکہ انبیاء ا و رسل جو کچھ کہتے ہیں وہ وحی کی بنیاد پر کہتے رہے۔
رسول اور بنی میں فرق صرف اتنا ہے کہ رسول اپنے ساتھ اپنی شریعت لاتا ہیں جبکہ نبی کی اپنی کوئی شریعت نہیں ہوتی۔ ہر رسول نبی تو ہو سکتا ہے لیکن کوئی نبی رسول نہیں ہتا۔
اللہ تعالی کے نبی دنیا کی تمام قوموں میں آئے اور ان سب نے اسلام کی تعلیم دی اورہمارے نبی وہی تعلیم دینے کے لیے سب سے آخر میں تشریف لائے، اس لحاظ سے اللہ کے تمام انبیاء کرام ایک گروہ کے لوگ تھے۔ اللہ تعالی کا ارشادہے:‘ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا (تا کہ وہ لوگوں کو بتائے) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے دورر ہو ‘‘۔(انحل۔6 3 )
مسند احمد میں حضرت ابو ذرغفاری ص سے منقول ایک طویل حدیث میں آیاہے۔ حضرت ابو ذر غفاری نے دریافت کیا، یا رسول اللہ انبیاء کی تعداد کتنی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ایک لاکھ چو بیس ہزارنبی ہیں،ان میں تیں سو پندرہ رسول ہیں‘‘۔
اس کے بعد ابو ذر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! دنیا میں سب سے پہلا نبی کون ہے، آپ ا نے فرمایا آدم علیہ السلام۔
رسول کی اطاعت ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم کو اللہ کے احکام و فرامین پہنچتے ہیں۔ کوئی اطاعت اللہ اور رسول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے۔ رسول کی پیروی سے منہ موڑنا، اللہ کی اطاعت سے بغاوت ہے۔
رسول اللہ حضرت محمدﷺ:
ہمارے نبی حضرت محمدقریش کے ایک معزز خاندان بنو ہاشم میں بروز پیر 571 ء میں پیدا ہوئے، (قمری حساب سے)۔ آپ کے والد آپ کی پیدائش سے چھ ماہ قبل جبکہ والدہ آپ کی پیدائش کے چھ سال بعد وفات پا گئیں۔جس کے بعد دادا عبدالمطلب اور چچا ابو طالب نے پرورش کی۔
آپ ﷺ کی پہلی شادی پچیس سال کی عمر میں چالیس سالہ حضرت خدیجہ سے ہوئی۔ حضرت خدیجہ نے اپنی سہیلی نفیسہ کے ساتھ حضورﷺ کو شادی کا پیغام بھجوایا تھا۔ حضرت خدیجہ جب تک حیات رہیں آپﷺ نے دوسری شادی نہیں کی۔
جب آپ چالیس سال چھ ماہ بارہ دن کی عمر کو پہنچے تو اللہ تعالی نے آپ کو منصب رسالت و نبوت کے لیے چن لیا۔ آپ غار حرا میں تھے تو جبر ئیل ؑ آپ کے پاس رب ذوالجلال کا کلام لے کر حاضر ہوئے۔ کل مدت نبوت 23سال ہے۔ آپ کی بعثت کے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی بنی یا روسول نہیں آنا۔ آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت العالمین بنا کر بھیجا گیا۔
خطبہ حجتہ الوداع میں آپ نے ارشاد فرمایا ’’ لوگو !یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ ‘‘ لہذا ہمارا ایمان ہے کہ آپﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں، جو کوئی آپ کے بعد نبوت و رسالت کا اعلان کرتاہے وہ جھوٹا ہے۔ رسول اللہ کی اطاعت تمام انسانوں پر بالعموم اور ایمان والوں پر بالخصوص فرض ہے۔ آپ ا کی اطاعت کے بغیرکوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ آپ کی رسالت تمام جہاں والوں کے لیے ہے۔ اللہ تعالی کا ارشادہے : (النساء۔170) ’ ’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ رسول آ گیاہے اس پر ایمان لے آو 150 اس میں تمہاری بھلائی ہے‘‘۔
نظریہِ آخرت:
آخرت کے لفظی معنی بعد میں ہونے والی چیز کے ہیں اس کے مقابلے میں دنیا کا لفظ ہے جس کے معنی پہلے کی چیز ہے۔ اسلام میں آخرت سے مراد وہ دن ہے جب یہ کائنات فنا ہو جائے گی اور تمام انسان اللہ کی بارگاہ میں موجود ہونگے اوران کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ آخرت عقائدِ اسلام میں سے ایک عقیدہ ہے قرآن میں (عربی زبان میں) آخرت کے لئے ’’الداد‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی گھر یا آخری گھر کے ہیں۔ اسلامی عقائد کے مطابق دنیاوہ زندگی آخری زندگی کا مقدمہ ہے اور یہ عارضی جبکہ آخرت کے بعد کی زندگی مستقل ہے۔
عقیدہ آخرت قرآن کی روشنی میں:
قرآن میں کئی جگہ پر آخرت کے متعلق ذکر موجود ہے۔ قرآن میں موجود دلائل کے مطابق اس دنیا کے بعد ایک نئی دنیا کو قائم ہونا ہے اور وہاں تمام انسانوں کی جزا و سزا کا واقع ہونا لازمی امر ہے۔
سورۃ الانبیاء کی آیت 3-4 میں ارشاد ہوا ’’ہر جاندار چیز فنا ہونے والی ہے اور روزِ آخرت (قیامت) کو تمام اعمال کا جائزہ لیا جائے گا ، رائی کے برابر عمل بھی شاملِ حساب ہوگا۔ پھر آگے سورۃ الانبیاء کی آیت 8تا 10میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’ اور اس روز (حساب کے دن) دودھ پلانے والی (مائیں) اپنے بچوں کو بھول جائیں گی اور ہیبت کا عالم ہوگا۔ انسان کے اعمال کے مطابق جزا و سزا کا تعین ہوگا۔
اسی طرح سورۃ السجدہ 14اور 15 میں آخرت کے حوالے سے ذکر آیا ہے کہ ’’اور پھر روزِ محشر انسانوں دوبارہ اٹھایا (زندہ کیا) جائے گا۔ انسان کے اپنے کان، آنکھیں حتی کہ جسم کی کھال اس کے اعمال کی گواہی دیں گے۔
عقیدہ آخرت احادیث کی روشنی میں:
قرآنِ پاک کے ساتھ ساتھ احادیث میں بھی آخرت کا ذکر کئی بار ہوا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ’’ اللہ تعالی ثابت قدم رکھتا ہے اہلِ ایمان کوقولِ ثابت کے ذریعے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ‘‘۔
احادیث (علمِ حدیث)
حدیث کیا ہے؟
حدیث کے لغوی معنی ’’بات‘‘ یا بات چیت کے ہیں ۔ دین اور شریعت کے متعلق حضورِ اکرم ﷺ کی طرف سے جو کچھ منسوب ہے اسے حدیث کہا جاتا ہے ۔حضور ﷺ کے اقوال، افعال اور ایسے واقعات جو آپ ﷺ کے سامنے پیش آئے اور آپ ﷺ نے ان میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی جسے تقریر کہتے ہیں ۔ گویا ایک طرح سے حضورﷺ کے دور کی تاریخ کا نام حدیث ہے۔
حدیث کی کتنی اقسام ہیں؟
حدیث کی تین قسمیں ہیں ۔
i : قولی یا قول ، وہ باتیں یا قول جو حضور ﷺ نے خود ارشاد فرمائے۔
ii: فعلی یا فعل، وہ تمام افعال جو حضور ﷺ نے کیئے وہ فعلی احادیث ہیں۔
iii: تقریری: جو بات آپ ﷺ کے سامنے کی گئی ہو اور آپ ﷺ نے اسے نہیں روکا یا رد نہیں کیا وہ تمام تقریری احادیث ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر و عوث کا حافظہ کمزور تھا اس لئے وہ حضورﷺ کی ہر بات لکھ لیتے تھے اس پر اہلِ عرب نے ان کو معن کیا تو عبداللہ بن عمرو نے حضور ﷺ سے اس کے متعلق عرض کیا تو حضورﷺ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا اور ارشاد فرمایا ’’ اس زبان سے کبھی کچھ غلط بیان نہیں ہوگا۔‘‘
راوی کی کیا خصوصیات ہوں، کون حدیث لکھ سکتا ہے؟
اس زمانے میں (حضور ﷺکی زندگی میں) حدیث لکھنے والوں کے لئے ایک شرط تھی ’’عقل‘‘ اور حافظہ سہی ہو اور وقت کی نزاکت سے حضور ﷺ کی کہی گئی بات کو سہی معنی میں سمجھ سکے۔ دوسری شرط تھی ضبط، اور تیسی شرط اصطلاح تھی جو ایک راوی کے لئے لازی تھی۔
حدیثِ قدسی سے کیا مراد ہے؟
وہ احادیث جس میں حضورﷺ نے اللہ کے احکامات کے متعلق ذکر کیا ہو حدیثِ قدسی کہلاتی ہیں ان کی تعداد 863ہے۔
نماز کی اہمیت و افادیتْ/ قرآن و حدیث کی روشنی میں نماز کے فائدے بیان کریں؟
نماز اسلام کی بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جھکنے کے ہیں۔ عربی میں لفظ ’’صلوۃ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں سات سو مرتبہ نماز کا ذکر اور حکم ہوا ہے۔ یہ ہر مومن مرد و عورت پر فرض ہے۔نماز کے کئی فائدے ہیں انفرادی فائدوں میں قربِ خداوندی، مقصدِ حیات کی یاد دہانی، فرض شناسی کا جذبہ، ضبطِ نفس اور اخلاقِ حسنہ کی تعمیر شامل ہیں۔
i ۔ قربِ خداوندی: نماز انسان اور خدا کے درمیان قربت پیدا کرتی ہے اسی سے خدا سے رابطہ ممکن ہوتا ہے۔ نماز کے دوران اللہ سے رشتہ مزید بڑھ جاتا ہے اور انسا سکون محسوس کرتا ہے۔
ii۔ مقصدِ حیات کی یاد دہانی: انسان اور حیات کی پیدائش کا مقصد اللہ کی عبادت ہے اور نماز ہی انسان کو دن میں پانچ باتر زندگی کا مقصد یا دلاتی ہے۔
iii۔ فرض شناسی: نماز سے انسان میں فرض شناسی کا جذبہ ترو تازہ رہتا ہے۔
iv۔ ضبطِ نفس: دل سے نماز کا فریضہ ادا کرنے والے افراد اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں۔ نماز انسان کو برائیوں سے بچاتی ہے۔
v۔ اخلاقِ حسنہ کی تعمیر: نماز میں سجدے کا عمل (جھنکے کا عمل) انسان کو عاجزی کا درس دیتا ہے اور عاجزی اخلاقِ حسنہ کی پہلی سیڑھی ہے۔
نماز کے اجتمائی فائدے:
i۔ مساوات کا درس: نمازِ با جماعت میں سب ہی (امیر و غریب) ایک ہی صف (قطار) میں کھڑے ہوتے ہیں اس سے مساوات کا درس ملتا ہے۔
ii۔ ہمدردی کا جذبہ: نماز ہمیں ہمدردی و بھائی چارے کا درس دیتی ہے۔
iii۔ وقت کی پابندی: پابندیِ وقت انسان کی ترقی کا راز ہے اور پانچ وقت کی نماز سے ہمیں اس کا درس میلا ہے اور انسان وقت کی پابندی سیکھتا ہے۔
iv۔ اطاعتِ امیری: با جماعت نماز کی ادائیگی سے امام یا امیر کی اطاعت کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
زکوات:
زکوات کے لفظ ’زکا‘ سے نکلا ہے جس کے معنیٰ پھلنا ، پھولنا، نشونما پانا یا اصطلاحاً پاک کر نے کے ہیں۔ سنہ دو ہجری میں مسلمانوں پر زکوات فرض کی گئی اور فتح مکہ کے بعد سنہ آٹھ ہجری میں زکواۃ کو قانونی شکل دی گئی۔
زکواۃ کانصاب: زکواۃ کے نصاب کی کم از کم شرح ساڑھے سات تولے سونا یا باون تولے چاندی کی مالیت کے برابر ہے جو سال کے جمع شدہ مال پر اڑھائی(2.5%) فیصد کی شرح سے مقرر ہے۔ یہ مال کی کم از کم مقدار ہے جس پر زکواۃ کا فرضیت عائد ہوئی ہے۔
سورۃ البقرہ 277میں ارشاد ہوا کہ ’’اور وہ جنہوں نے نماز قائم کی اور زکواۃ دیتے رہے ان کے لئے ان کے رب کے پاس جزا ہے۔‘‘
زکواۃ کی فرضیت کی دو بنیادہ شرائط:
پہلی شرط: زکواۃ ادا کرنے والے کا صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الذکواۃ جز123)
دوسری شرط: اگر مال ہو تو جمع شدہ مال پر پورا سال گزارنا ۔ (صحیح بخاری کتاب الذکواۃ جز123)
نصاب کی تعریف: نصاب سے مراد مال یا پیداوار کی وہ کم سے کم مقدار ہے جب تک مال یا پیداوار اس مقدار میں نہ ہوں تو زکواۃ فرض نہیں ہوتی۔ (صحیح بخاری کتاب الذکواۃ جز144)
مختلف اشیاء کا نصاب و شرح:
انٹوں کا نصاب پانچ اونٹ ہیں۔ پانچ سے نو اونٹ پر ایک بکری کی زکواۃ ادا کرنی ہوتی ہے۔ پانچ سے کم اونٹ پر کوئی زکواۃ نہیں۔
بکریوں کا نصاب چالیس بکریاں ہیں۔ چالیس سے ایک سو بیس بکریوں پر ایک بکری زکواۃ۔
چاندی میں پانچ اوقیہ (باون تولے) چاندی یا اس سے زیادہ پر کل مقدار کا چالیسواں حصہ یعنی 2.5% (ڈھائی فیصد) ۔ نقد رقم پر بھی یہی نصاب ہے۔
سونے کا نصاب ساڑھے سات تو لے یا اس سے زیادہ پر کل مقدار کا چالیسواں حصہ یعنی 2.5% (ڈھائی فیصد)
Tags
B.Ed Notes