Afsana Kitab ka Khulasa

کتاب کا خلاصہ                                                

سردیوں میں انور ممٹی پر پتنگ اڑا رہا تھا۔ اس کا چھوٹا بھانجا اس کے ساتھ تھا۔ چونکہ انور کے والد کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور وہ دیر سے
 واپس آنے والے تھے اس لیے وہ پوری آزادی اور بڑی بے پروائی سے پتنگ بازی میں مشغول تھا۔ پیچ ڈھیل کا تھا۔ انور بڑے زوروں سے اپنی مانگ پائی پتنگ کو ڈور پلا رہا تھا۔ اس کے بھانجے نے جس کا چھوٹا سا دل دھک دھک کررہا تھا اور جس کی آنکھیں آسمان پر جمی ہوئی تھیں انور سے کہا۔
’’ماموں جان کھینچ کے پیٹ کاٹ لیجیے۔ ‘‘
مگر وہ دھڑا دھڑ ڈور پلاتا رہا۔ نیچے کھلے کوٹھے پر انور کی بہن سہیلیوں کے ساتھ دھوپ سینک رہی تھی۔ سب کشیدہ کاری میں مصروف تھیں۔ ساتھ ساتھ باتیں بھی کرتی جاتی تھیں۔ انور کی بہن شمیم انور سے دو برس بڑی تھی۔ کشیدہ کاری اور سینے پرونے کے کام میں ماہر۔ اسی لیے گلی کی اکثر لڑکیاں اس کے پاس آتی تھیں اور گھنٹوں بیٹھی کام سیکھتی رہتی تھیں۔ ایک ہندو لڑکی جس کا نام بملا تھا بہت دور سے آتی تھی۔ اس کا گھر قریباً دو میل پرے تھا۔ لیکن وہ ہر روز بڑی باقاعدگی سے آتی اور بڑے انہماک سے کشیدہ کاری کے نئے نئے ڈیزائن سیکھا کرتی تھی۔ بملا کا باپ اسکول ماسٹر تھا۔ بملا ابھی چھوٹی بچی ہی تھی کہ اس کی ماں کا دیہانت ہو گیا۔ بملا کا باپ لالہ ہری چرن چاہتا تو بڑی آسانی سے دوسری شادی کرسکتا تھا مگر اس کو بملا کا خیال تھا، چنانچہ وہ رنڈوا ہی رہا اور بڑے پیار محبت سے اپنی بچی کو پال پوس کر بڑا کیا۔ اب بملا سولہ برس کی تھی۔ سانولے رنگ کی دبلی پتلی لڑکی۔ خاموش خاموش بہت کم باتیں کرنے والی۔ بڑی شرمیلی۔ صبح دس بجے آتی۔ آپا شمیم کو پرنام کرتی اور اپنا تھیلا کھول کر کام میں مشغول ہو جاتی۔ انور اٹھارہ برس کا تھا۔ اس کو تمام لڑکیوں میں سے صرف سعیدہ سے ہلکی سی دلچسپی تھی، لیکن یہ ہلکی سی دلچسپی کوئی اور صورت اختیار نہیں کرسکی تھی اس لیے کہ اس کی بہن اس کو لڑکیوں میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ اگر وہ کبھی ایک لحظے کے لیے ان کے پاس آبیٹھتا تو آپا شمیم فوراً ہی اس کو حکم دیتیں،
’’انور اٹھو، تمہارا یہاں کوئی کام نہیں‘‘
اور انور کو اس حکم کی فوری تعمیل کرنی پڑتی۔ بملا البتہ کبھی کبھی انور کو بلاتی تھی، ناول لینے کے لیے۔ اس نے شمیم سے کہا تھا۔
’’گھر میں میرا جی نہیں لگتا۔ پتا جی باہر شطرنج کھیلنے چلے جاتے ہیں۔ میں اکیلی پڑی رہتی ہوں۔ انور بھائی سے کہئے، مجھے ناول دے دیا کریں پڑھنے کے لیے۔ ‘‘
پہلے تو بملا، شمیم کے ذریعے سے ناول لیتی رہی پھر کچھ عرصے کے بعد اس نے براہ راست انور سے مانگنے شروع کردیے۔ انور کو بملا بڑی عجیب و غریب لڑکی لگتی تھی۔ یعنی ایسی جو بڑے غور سے دیکھنے پر دکھائی دیتی تھی۔ لڑکیوں کے جھرمٹ میں تو وہ بالکل غائب ہو جاتی تھی۔ بیٹھک میں جب وہ انور سے نیا ناول مانگنے آتی تو اس کو اس کی آمد کا اس وقت پتا چلتا جب وہ اس کے پاس آکر دھیمی آواز میں کہتی۔
’’انور صاحب۔ یہ لیجئے اپنا ناول۔ شکریہ۔ ‘‘
انور اس کی طرف دیکھتا۔ اس کے دماغ میں عجیب و غریب تشبیہہ پُھدک اٹھتی۔
’’یہ لڑکی تو ایسی ہے جیسے کتاب کا خلاصہ۔ ‘‘
بملا اور کوئی بات نہ کرتی۔ پرانا ناول واپس کرکے نیا ناول لیتی اور نمستے کرکے چلی جاتی۔ انور اس کے متعلق چند لمحات سوچتا، اس کے بعد وہ اسکے دماغ سے نکل جاتی۔ لیکن انور نے ایک بات ضرورمحسوس کی تھی کہ بملا نے ایک دو بار اس سے کچھ کہنا چاہا تھا مگر کہتے کہتے رک گئی تھی۔ انور سوچتا۔
’’کیا کہنا چاہتی تھی مجھ سے؟‘‘
اس کا جواب اس کا دماغ یوں دیتا۔
’’کچھ بھی نہیں۔ مجھ سے وہ کیا کہنا چاہتی ہو گی بھلا؟‘‘
انور ممٹی پر پتنگ اڑا رہا تھا۔ پیچ ڈھیل کا تھا، خوب ڈور پلا رہا تھا۔ دفعتہً اس کی بہن شمیم کی گھبرائی ہوئی آواز۔
’’انور۔ انور۔ ابا جی آگئے!‘‘
انور کو اور کچھ نہ سوجھا۔ ہاتھ سے ڈور توڑی اور ممٹی پر سے نیچے کود پڑا۔ وہ کاٹا، وہ کاٹا کا شور بلند ہوا۔ انور کا گھٹنا بڑے زوروں سے چھل گیا تھا۔ ایک اس کو اس کا دکھ تھا اس پر اُس کے حریف فاتحانہ نعرے لگا رہے تھے۔ لنگڑاتا لنگڑاتا چارپائی پر بیٹھ گیا۔ گھٹنے کو دیکھا تو اس میں سے خون بہہ رہا تھا۔ بملا سامنے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنا دوپٹہ اتارا، کنارے پر سے تھوڑا سا پھاڑا اور پٹی بنا کر انور کے گھٹنے پر باندھ دیا۔ انور اس وقت اپنے پتنگ کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ میدان اس کے ہاتھ رہے گا۔ لیکن اس کے باپ کی بے وقت آمد نے اسے مجبور کردیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اتنے بڑھے ہوئے پتنگ کا خاتمہ کردے۔ حریفوں کے نعرے ابھی تک گونج رہے تھے۔ اس نے غصہ آمیز آواز میں اپنی بہن سے کہا۔
’’ابا جی کو بھی اسی وقت آنا تھا۔ ‘‘
شمیم مسکرائی۔
’’وہ کب آئے ہیں۔ ‘‘
انور چلایا۔
’’کیا کہا؟‘‘
شمیم ہنسی۔
’’میں نے تم سے مذاق کیا تھا۔ ‘‘
انور برس پڑا۔
’’میرا بیڑا غرق کراکے آپ ہنس رہی ہیں۔ اچھا مذاق ہے۔ ایک میرا اتنا بڑھا ہوا پتنگ غارت ہوا۔ لوگوں کی آوازے سنے۔ اور گھٹنا الگ زخمی ہوا۔ ‘‘
یہ کہہ کر انور نے اپنے گھٹنے کی طرف دیکھا۔ سفید ململ کی پٹی بندھی تھی۔ اب اس کو یہ یاد آیا کہ یہ پٹی بملا نے اپنا دوپٹہ پھاڑ کر اس کے باندھی تھی۔ اس نے شکر گزار آنکھوں سے بملا کو دیکھا اور اسکو ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس کے زخم کے درد کو محسوس کررہی ہے۔ بملا، شمیم سے مخاطب ہو۔
’’آپ آپ نے بہت ظلم کیا۔ زیادہ چوٹ آجاتی تو۔ ‘‘
وہ کچھ اور کہتے کہتے رک گئی اور کشیدہ کاڑھنے میں مصروف ہو گئی۔ انور کی نگاہ بملا سے ہٹ کر سعیدہ پر پڑی۔ سفید پل اوور میں وہ اسے بہت بھلی معلوم ہوئی۔ انور اس سے مخاطب ہوا۔
’’سعیدہ تم ہی بتاؤ یہ مذاق اچھا تھا۔ ہنسی میں پھنسی ہو جاتی تو؟‘‘
شمیم نے اسے ڈانٹ دیا۔
’’جاؤ انور تمہارا یہاں کوئی کام نہیں۔ ‘‘
انور نے ایک نگاہ سعیدہ پر ڈالی۔ بہت اچھا۔ کہہ کر اٹھا اور لنگڑاتا لنگڑاتا پھر ممٹی پر چڑھ گیا۔ تھوڑی دیر پتنگ اڑائے۔ غصے میں کھینچ کے ہاتھ مار کر قریباً ایک درجن پتنگ کاٹے اور نیچے اتر آیا۔ گھٹنے میں درد تھا۔ بیٹھک میں صوفے پر لیٹ گیا اور اوپر کمبل ڈال لیا۔ تھوڑی دیر اپنی فتوحات کے متعلق سوچا اور سو گیا۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اس کو آواز سنائی دی جیسے کوئی اسے بلا رہا ہے۔ اس نے آنکھیں کھولیں، دیکھا سامنے بملا کھڑی تھی۔ مرجھائی ہوئی۔ کچھ سمٹی ہوئی۔ انور نے لیٹے لیٹے پوچھا
’’کیا ہے بملا؟‘‘
’’جی، میں آپ سے کچھ۔ ‘‘
بملا رک گئی۔
’’جی میں آپ سے کوئی۔ کوئی نئی کتاب دیجیے۔ ‘‘
انور نے کہا۔
’’میرے گھٹنے میں زوروں کا درد ہے۔ وہ جو سامنے الماری ہے اسے کھول کر جو کتاب تمہیں پسند ہو لے لو۔ ‘‘
بملا چند لمحات کھڑی رہی، پھر چونکی
’’جی؟‘‘
انور نے اس کو غور سے دیکھا۔ اس دوپٹے کے پیچھے جس میں سے بملا نے پٹی پھاڑی تھی، بڑی مریل قسم کی چھاتیاں دھڑک رہی تھیں۔ انور کو اس پر ترس آیا۔ اس کی شکل وصورت، اس کے خدوخال ہی کچھ اس قسم کے تھے کہ اس کو دیکھ کر انور کے دل و دماغ میں ہمیشہ رحم کے جذبات پیدا ہوتے تھے۔ اس کو اور تو کچھ نہ سوجھا۔ یہ کہا۔
’’پٹی باندھنے کا شکریہ!‘‘
بملا نے کچھ کہے بغیر الماری کا رخ کیا اور اسے کھول کر کتابیں دیکھنے لگی۔ انور کے دماغ میں وہ تشبیہہ پھر پھدکی
’’یہ کتاب نہیں، کتاب کا خلاصہ ہے۔ بہت ہی ردی کاغذوں پر چھپا ہوا!‘‘
بملا نے ایک بار انور کو کنکھیوں سے دیکھا مگر جب اسے متوجہ پایا تو اس کی طرف پیٹھ کرلی۔ کچھ دیر کتابیں دیکھیں۔ ایک منتخب کی، الماری کو بند کیا، انورکے پاس آئی اور
’’میں یہ لے چلی ہوں‘‘
کہہ کر چلی گئی۔ انور نے بملا کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی مگر اس کو سعیدہ کے سفید پُل اوور کا خیال آتا رہا۔
’’پل اوور پہننے سے جسم کے خط کتنے واضح ہو جاتے ہیں۔ سعیدہ کا سینہ اور اس بملا کی مریل چھاتیاں۔ جیسے ان کا دودھ الگ کرکے صرف پانی رہنے دیا گیا ہے۔ سعیدہ کے گھنگھریالے بال۔ کم بخت نے اپنے ماتھے کے زخم کے نشان کو چھپانے کا کیا ڈھنگ نکالا ہے۔ بل کھاتی ہوئی ایک لٹ چھوڑ دیتی ہے اس پر۔ اور بملا۔ جانے کیا تکلیف ہے اسے۔ آج بھی کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی۔ مگر مجھ سے کیا کہنا چاہتی ہے۔ شاید اس کا اندازہی کچھ اس قسم کا ہو۔ ہمیشہ کتاب اسی طرح مانگتی ہے جیسے کوئی مدد مانگ رہی ہے۔ کوئی سہارا ڈھونڈ رہی ہے۔ سعیدہ ماشاء اللہ آج سفید پل اوور میں قیامت ڈھا رہی تھی۔ یہ قیامت ڈھانا کیا بکواس ہے۔ قیامت تو ہر چیز کا خاتمہ ہے اور سعیدہ تو ابھی میری زندگی میں شروع ہوئی ہے۔ بملا۔ بملا۔ بھئی میری سمجھ میں نہیں آئی یہ لڑکی۔ باپ تو اس کو بہت پیار کرتا ہے۔ اسی کی خاطر اس نے دوسری شادی نہ کی۔ شاید ان کو کوئی مالی تکلیف ہو۔ لیکن گھر تو خاصا اچھا تھا۔ ایک ہی پلنگ تھا لیکن بڑا شاندار۔ صوفہ سیٹ بھی برا نہیں تھا۔ اور جو کھانا میں نے کھایا تھا اس میں کوئی برائی نہیں تھی۔ سعیدہ کا گھر تو بہت ہی امیرانہ ہے۔ بڑے رئیس کی لڑکی ہے۔ اس ریاست کی ایسی تیسی۔ یہی تو بہت بڑی مصیبت ہے ورنہ۔ لیکن چھوڑو جی۔ سعیدہ جوان ہے، کل کلاں بیاہ دی جائے گی۔ مجھے خدا معلوم کتنے برس لگیں گے۔ پوری تعلیم حاصل کرنے میں۔ بی اے۔ بی اے کے بعد ولایت۔ میم؟۔ دیکھیں!۔ لیکن سفید پل اوور خوب تھا!‘‘
انور کے دماغ میں اسی قسم کے مخلوط خیالات آتے رہے، اس کے بعد وہ دوسرے کاموں میں مشغول ہو گیا۔ دوسرے روز بملا نہ آئی مگر انور نے اس کی غیر حاضری کو کچھ زیادہ محسوس نہ کیا، بس صرف اتنا دیکھا کہ وہ لڑکیوں کے جھرمٹ میں نہیں ہے۔ شاید ہو، لیکن اگلے روز جب بملا آئی تو لڑکیوں نے اس سے پوچھا۔
’’بملا تم کل کیوں نہ آئیں۔ ‘‘
بملا اور زیادہ مرجھائی ہوئی تھی، اور زیادہ مختصر ہو گئی تھی جیسے کسی نے رندہ پھیر کر اس کو ہر طرف سے چھوٹا اور پتلا کردیا ہے۔ اس کا سانولا رنگ عجب قسم کی دردناک زردی اختیار کرگیا تھا۔ لڑکیوں کا سوال سن کر اس نے انور کی طرف دیکھا جو گملوں میں پانی دے رہا تھا اور تھیلا کھول کر چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’کل پتا جی۔ کل پتا جی بیمار تھے۔ ‘‘
شمیم نے افسوس ظاہر کیا اور پوچھا۔
’’کیا تکلیف تھی انھیں؟‘‘
بملا نے انور کی طرف دیکھا۔ چونکہ وہ اس کو دیکھ رہا تھا۔ اس لیے نگاہیں دوسری طرف کرلیں اور کہا
’’تکلیف۔ معلوم نہیں کیا تکلیف تھی‘‘
پھر تھیلے میں ہاتھ ڈال کر اپنی چیزیں نکالیں۔
’’میں تو نہیں سمجھتی۔ ‘‘
انور نے لوٹا منڈیر پر رکھا اور بملا سے مخاطب ہوا
’’کسی ڈاکٹر سے مشورہ لیا ہوتا۔ ‘‘
بملا نے انور کو بڑی تیز نگاہوں سے دیکھا۔
’’ان کا روگ ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ ‘‘
انور کو ایسا محسوس ہوا کہ بملا نے اس سے یہ کہا ہے۔
’’ان کا روگ تم سمجھ سکتے ہو۔ ‘‘
وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سعیدہ کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔ وہ بملا سے کہہ رہی تھی۔
’’خالو جان کے پاس جائیں وہ بہت بڑے ڈاکٹر ہیں۔ یوں چٹکیوں میں سب کچھ بتا دیں گے۔ ‘‘
سعیدہ نے چٹکی بجائی تھی مگر بجی نہیں تھی۔ انور نے اس سے کہا
’’سعیدہ تم سے چٹکی کبھی نہیں بجے گی۔ فضول کوشش نہ کیا کرو۔ ‘‘
سعیدہ شرما گئی، آج کا پل اوور سیاہ تھا۔ انور نے سوچا۔
’’کم بخت پر ہررنگ کِھلتا ہے۔ لیکن کتنے پُل اوور ہیں اس کے پاس؟۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی بنتی ہی رہتی ہے۔ سویٹروں اور پل اووروں کا خبط ہے۔ اس سے میری شادی ہو جائے تو مزے آجائیں، پل اوور ہی پل اوور۔ دوست یار خوب جلیں۔ لیکن یہ بملا کیوں آج راکھ کی ڈھیر سی لگتی ہے۔ سعیدہ شرما گئی تھی۔ یہ شرمانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ چٹکی بجانا سیکھ لے مجھ سے۔ مجھ سے نہیں تو کسی اور سے۔ لیکن بہترین چٹکی بجانے والا ہوں۔ ‘‘
یہ سب کچھ اس نے ایک سیکنڈ کے عرصے میں سوچا۔ سعیدہ نے کوئی جواب نہ دیا تھا۔ انور نے اس سے کہا۔
’’دیکھئے چٹکی یوں بجایا کرتے ہیں۔ ‘‘
اور اس نے بڑے زور سے چٹکی بجائی۔ اتفاقاً اس کی نگاہ بملا پر پڑی۔ اس کے چہرے پر مایوسی کی مردنی طاری تھی۔ انور کے دل میں ہمدردی کے جذبات ابھر آئے۔
’’بملا تم پتا جی سے کہو کہ وہ کسی اچھے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ لیں۔ ان کے سوا تمہارا اور کون ہے؟‘‘
یہ سن کر بملا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ زور سے دونوں ہونٹ بھینچے اور انتہائی ضبط کے باوجود زار و قطار روتی، برساتی کی طرف دوڑ گئی۔ ساری لڑکیاں کام چھوڑ کر اس کی طرف بھاگیں انور نے برساتی میں جانا مناسب نہ سمجھا اور نیچے بیٹھک میں چلا گیا۔ بملا کے بارے میں اس نے سوچنے کی کوشش کی مگر اس کے دماغ نے اسکی رہبری نہ کی۔ وہ بملا کے دکھ درد کا صحیح تجزیہ نہ کرسکا وہ صرف اتنا سوچ سکا کہ اس کو صرف اس بات کا غم ہے کہ اس کی ماں زندہ نہیں۔ شام کو انور نے اپنی بہن سے بملا کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا۔
’’معلوم نہیں کیا دکھ ہے بیچاری کو۔ اپنے باپ کا بار بار ذکر کرتی تھی کہ ان کو جانے کیا روگ ہے اوربس!‘‘
سعیدہ پاس کھڑی تھی۔ سیاہ پل اوور پہنے۔ اس کی جیتی جاگتی چھاتیاں آبنوسی گولوں کی صورت میں اس کے سفید ننون کے دوپٹے کی پیچھے بڑا دلکش تضاد پیدا کررہی تھیں۔ ایسا لگاتھا جیسے سایہ بٹوں پر ان کی چمک چھپانے کے لیے کسی مکڑی نے مہین سا جالا بن دیا ہے۔ انور بملا کو بھول گیا اور سعیدہ سے باتیں کرنے لگا۔ سعیدہ نے اس سے کوئی دلچسپی نہ لی اور آپا شمیم کو سلام کرکے چلی گئی۔ انور بیٹھک میں کالج کا کام کرنے بیٹھا تو اسے بملا کا خیال آیا۔
’’کیسی لڑکی ہے؟۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میرے پٹی باندھی۔ اپنا دوپٹہ پھاڑ کر۔ آج میں نے کہا، پتا جی کے سوا تمہارا کون ہے تو اس لیے زار و قطار رونا شروع کردیا۔ اور جب میں گملوں میں پانی دے رہا تھا تو بملا کی اس بات سے کہ ان کا روگ ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آئے گا اس نے کیوں یہ محسوس کیا تھا کہ بملا نے اس کے بجائے اس سے یہ کہا ہے، ان کا روگ تم سمجھ سکتے ہو۔ لیکن میں کیسے سمجھ سکتا ہوں۔ کیا سمجھ سکتا ہوں۔ وہ مجھے ٹھیک طور پر سمجھاتی کیوں نہیں، یعنی اگر وہ کچھ سمجھانا ہی چاہتی ہے۔ میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آتا۔ جب اس نے میری طرف دیکھا تھا تو اس کی نگاہوں میں اتنی تیزی کیوں تھی۔ اب خیال کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے جیسے وہ میری ذہانت و فراست پر لعنت بھیج رہی تھی۔ لیکن کیوں؟۔ ہٹاؤ جی۔ سعیدہ۔ ہاں وہ سیاہ پل اوور۔ سفید ننوں کا ہوائی دوپٹہ۔ اور۔ لیکن مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔ جانے کس کا مال ہے۔ خیر کچھ بھی ہو۔ خوبصورت لڑکی ہے۔ مگر اس پر خوبصورتی ختم تو نہیں ہو گئی۔ ‘‘
اگلے روز بملا نہ آئی۔ انور کے گھر میں سب متفکر تھے۔ دعائیں کرتے تھے کہ خدا اس کے باپ کو اس کے سر پر سلامت رکھے۔ شمیم کو بملا بے حد پسند تھی۔ اس لیے کہ وہ خاموشی پسند اور ذہین تھی۔ باریک سے باریک بات فوراً سمجھ جاتی تھی، چنانچہ وہ سارا دن وقفوں کے بعد اس کو یاد کرتی رہی۔ انور کی ماں نے تو انور سے کہا کہ وہ سائیکل پر جائے اور بملا کے باپ کی خیریت دریافت کرکے آئے۔ انور گیا۔ بملا ساگوان کے چوڑے پلنگ پر اوندھی لیٹی تھی۔ سانس کا اتار چڑھاؤ تیز تھا۔ انور نے ہولے سے پکارا تو کوئی رد عمل نہ ہوا۔ ذرا بلند آواز میں کہا۔
’’بملا۔ ‘‘
تو وہ چونکی کروٹ بدل کر اس نے انور کو دیکھا۔ انور نے نمستے کی۔ بملا نے ہاتھ جوڑ کر اس کا جواب دیا۔ انور نے دیکھا کہ بملا کی آنکھیں میلی تھیں، جیسے وہ روتی رہی تھی اور اس نے اپنے آنسو خشک نہیں کیے تھے۔ پلنگ پر سے اٹھ کر اس نے انور کو کرسی پیش کی اور خود فرش پر بچھی ہوئی دری پر بیٹھ گئی۔ انور نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد
’’وہاں سب کو بہت فکر تھی۔ پتا جی کہاں ہیں؟‘‘
بملا کے مرجھائے ہوئے ہونٹ کھلے اور اس نے کھوکھلی آواز میں صرف اتنا کہا
’’پتا۔ !‘‘
انور نے پوچھا۔
’’طبیعت کیسی ہے ان کی۔ ‘‘
’’اچھی ہے۔ ‘‘
بملا کی آواز اس کی آواز نہیں تھی۔
’’تم آج نہیں آئیں تو سب کو بڑی تشویش ہوئی۔ امی جان نے مجھ سے کہا، سائیکل پر جاؤ اور پتا لے کر آؤ۔ لالہ جی کہاں ہیں؟‘‘
’’شطرنج کھیلنے گئے ہیں۔ ‘‘
’’تم آج کیوں نہیں آئیں؟‘‘
’’میں؟‘‘
یہ کہہ کر بملا رک گئی۔ تھوڑے وقفے کے بعد بولی
’’میں اب نہیں آسکوں گی، ۔ مجھے۔ مجھے ایک کام مل گیا ہے۔ ‘‘
انورنے پوچھا۔
’’کیسا کام؟‘‘
بملا نے ایک آہ بھری
’’کل ہی معلوم ہوا ہے۔ جانے کیا ہے۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے کانپی۔
’’ٹھیک ہے، جو کچھ بھی ہے ٹھیک ہے۔ ‘‘
پھر وہ جیسے اپنے اندر ڈوب گئی۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر انور نے اکتا کر پوچھا۔
’’میں ان سے کیا کہوں؟‘‘
’’بملا چونکی، کیا؟‘‘
انور نے اپنے الفاظ دہرائے۔
’’میں ان سے کیا کہوں؟‘‘
’’اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ سب کو نمستے!‘‘
انور کرسی پر سے اٹھا۔ ہاتھ جوڑ کر بملا کو نمستے کی۔ بملا نے اس کا جواب دیا مگر انور کھڑا رہا۔ بملا، خلا میں دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد انور اس سے مخاطب ہوا۔
’’بملا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ تم نے مجھ سے کئی بار کچھ کہنے کی کوشش کی۔ مگر کہہ نہ سکیں۔ میں پوچھ سکتا ہوں۔ ‘‘
بملا کے ہونٹوں پر ایک زخم خوردہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ انور اپنی بات مکمل نہ کرسکا، بملا اٹھی۔ کھڑکی کے ساتھ لگ کر اس نے نیچے بڑی بدرو کی طرف دیکھا اور انور سے کہا۔
’’جو میں کہہ نہ سکی، تم سمجھ نہ سکے، اب کہنے اور سمجھنے سے بہت پرے چلا گیا ہے۔ تم جاؤ، میں سونا چاہتی ہوں۔ ‘‘
انور چلا گیا۔ بملا پھر نہ آئی۔ قریباً دس مہینے بعد اخباروں میں یہ سنسنی پھیلانے والی خبر شائع ہوئی کہ بی سڑک کی بدرو میں ایک نوزائیدہ بچہ مرا ہوا پایا گیا۔ تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ بچہ لالہ ہری چرن اسکول ماسٹر کی لڑکی بملا کا تھا اور بچے کا باپ خود لالہ ہری چرن تھا۔ سب پر سکتہ چھا گیا۔ انور نے سوچا
’’تو ساری کتاب کا خلاصہ یہ تھا۔ ‘‘
سعادت حسن منٹو


Post a Comment

نموذج الاتصال